سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(452) امانت دار اور احکام حج سے واقف شخص ہی کو وکیل بنایا جا سکتا ہے

  • 1262
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1603

سوال

(452) امانت دار اور احکام حج سے واقف شخص ہی کو وکیل بنایا جا سکتا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نے کسی کو وکیل مقرر کیا تاکہ وہ اس کی ماں کی طرف سے حج کر لے اور بعد میں اسے معلوم ہوا کہ یہ اور بھی کئی لوگوں کی طرف سے وکیل بنا ہے، تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

انسان کو اپنے تصرف میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے وہ اپنے معاملے کو کسی ایسے شخص کے سپرد کرے جس کے دین کے بارے میں اسے پورا پورا اطمینان ہو کہ وہ امانت دار ہے اور جس کام کے لیے اسے وکیل بنایا گیا ہے، اسے خوب جانتا ہے، مثلاً: جب آپ کسی شخص کو اس لیے مال دینے کا ارادہ کریں۔ کہ وہ آپ کے مرحوم باپ یا ماں کی طرف سے حج کرے، تو آپ ایسے شخص کو منتخب کریں، جس کے علم اور دین کے بارے میں آپ کو اعتماد ہو کیونکہ بہت سے لوگ تو احکام حج کے بارے میں عظیم جہالت میں مبتلا ہیں۔ وہ حج کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتے، خواہ فی نفسہٖ امانت دار ہوں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان پر واجب ہے اور وہ بہت سی غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں۔ احکام حج کے بارے میں علم کی کمی کی وجہ سے ایسے لوگوں کو نائب نہیں بنانا چاہیے۔ کچھ لوگوں کو احکام حج کا علم تو ہوتا ہے لیکن ان میں امانت و دیانت کا فقدان ہوتا ہے اور انہیں اس بات کا پاس نہیں ہوتا کہ مناسک حج میں وہ کیا کہہ رہے یا کر رہے ہیں۔ اسے بھی حج کے سلسلے میں اپنا وکیل نہیں بنانا چاہیے بلکہ حج کے لیے ایسے شخص کو امین بنانا چاہیے جو علم اور امانت کے اعتبار سے افضل ہو تاکہ وہ اس فرض کو اکمل طریقے سے ادا کر سکے جس کے ادا کرنے کا اس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

یہ شخص جس کے بارے میں سائل نے ذکر کیا ہے کہ اس نے مال دیا تاکہ وہ اس کی والدہ کی طرف سے حج کرے لیکن بعد میں اس نے سنا کہ اس نے کئی اور لوگوں کے لیے بھی حج بدل ادا کرنے کے لیے رقوم لی ہیں، تو دیکھنا چاہیے شاید اس کے پاس اور لوگ بھی ہوں جن کو اس نے حج بدل ادا کرنے کے لیے تیار کر رکھا ہو اور وہ خود اس کی طرف سے بھی حج کر رہا ہو جس کی طرف سے اسے نیابت سپرد کی گئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا کام کرنا کسی انسان کے لیے جائز ہے؟ یعنی کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ حج یا عمرے میں متعدد اشخاص کی طرف سے وکیل بنے اور پھر خود براہ راست ان کی طرف سے حج یا عمرہ ادا نہ کرے بلکہ اسے دوسرے لوگوں کے سپرد کر دے۔

ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ یہ کسی صورت میں جائز اور حلال نہیں ۔ بلکہ یہ مال کو باطل طریقے سے کھانا ہے۔ بعض لوگوں نے تو اسے کاروبار بنا لیا ہے کہ وہ یہ ذمہ داری مختلف لوگوں کے سپرد کر دیتے ہیں اور اس طرح باطل طریقے سے مال کھاتے رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی طرف سے ایسے لوگوں کو حج وعمرہ پر بھیج دیتے ہیں، جن کو اصحاب مال شاید پسند نہ کریں۔ ایسے لوگوں کو اپنے اور اپنے بھائیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ اس طرح مال کھانا ناحق طریقے سے مال کھانا ہے۔ اگر اسے بعض بھائیوں کی طرف سے حج یا عمرے کے سلسلے میں امین سمجھا گیا ہے، تو اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ از خود یہ کام کسی کے سپرد کر دے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ اس شخص کو اس نے یہ کام سونپا ہے مال داکرنے والے لوگ اسے حج یا عمرے کے لیے پسند نہ کرتے ہوں۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ408

محدث فتویٰ

تبصرے