سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(134) ثواب کی نیت سے مدینہ کی زیارت کرنا

  • 12608
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1053

سوال

(134) ثواب کی نیت سے مدینہ کی زیارت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایک سائل نے یہ سوال پوچھا ہے، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

(من زارني بالمدينة محتسباً كنت له شفيعاً شهيداً يوم القيامة)

’’جس نے حصول ثواب کی نیت سےمدینہ میں میری زیارت  کی میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس حدیث کو ابن ابی الدنیا نے بطریق انس بن مالک رضی اللہ عنہ، نبی اکرمﷺ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں سلیمان بن یزید کعبی ضعیف ہے(۱) ابوداؤد طیالسی نے اسے بطریق حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے مگر اس کی سند میں بھی ایک راوی مجہول ہے۔(۲) ہاں البتہ عبرت، نصیحت اور میت کی خاطر دعا کے لیے عام قبروں کی زیارت کی ترغیب میں صحیح احادیث وارد ہیں لیکن خاص طور پر نبی ﷺکی قبر کی زیارت کے سلسلہ میں جس قدر بھی احادیث مروی ہیں وہ سب کی سب ضعیف ہیں بلکہ انہیں موضوع قرار دیا گیا ہے لہٰذا جو شخص قبروں یا رسول اللہﷺ کی قبر کی شرعی زیارت کرے یعنی یہ زیارت عبرت، نصیحت اور اموات کے لیے دعا پر مشتمل ہو، نبی اکرمﷺ کی ذات گرامی کے لیے درود اور صاحبین کے لیے ترضی پر مشتمل ہو اور اس مقصد کے لیے شدر حال یا سفر اختیار نہ کیا گیا ہو تو یہ زیارت مشروع ہے اور اس میں ثواب کی امید ہے اور اگر کوئی شدر حال اور سفر اختیار کرے یا برکت اور نفع حاصل کرنے کے لیے زیارت کرے یا مخصوص ایام و اوقات میں زیارت کرے تو یہ زیارت بدعت ہے۔ اس کے بارے میں کوئی صحیح نص نہیں ہے اور نہ اس امت کے سلف سے ایسی زیارت ثابت ہے، بلکہ اس سلسلہ میں ممانعت کی نصوص وارد ہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

( لاَ تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلاَثَةِ مَسَاجِدَ: المَسْجِدِ الحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَسْجِدِ الأَقْصَى )((صحیح البخاری فضل الصلاۃ فی مسجد مكة والمدينة باب فضل الصلاة في مسجد مكةوالمدينه حديث 1189 وصحيح مسلم الحج باب فضل المساجد الثلاة حديث 1397 والفظ له)

تین مسجدوں کے سوا اور کسی مسجد کیلئے شدرحال نہ کیا جائے(1) میری یہ مسجد(2) مسجد حرام اور(3) مسجد اقصیٰ۔‘‘

اس طرح آپ نے فرمایا:

« لا تتخذوا قبري عيداً ، ولا تجعلوا بيوتكم قبوراً ، وحيثما كنتم فصلّوا علّي فإنّ صلاتكم تبلغني )(سنن  ابي داود المناسك باب وزيارة القبور حديث 2042ومسند احمد 367/2والفظ له)

’’میر قبر کو میلہ  اور اپنے گھروں کو قبریں بنانا اور تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر دورد پڑھنا تمہار دورد مجھے پھنچایا جائے گا۔‘‘


(۱) ابن ابی الدنیا فی کتاب القبور ، تاریخ جرجان، ص : 220، حدیث:347

(۲) ابوداود الطیالسی ، ص: 13,12 و سنن الکبری للبیھقي : 245/5

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ اسلامیہ

ج4ص118

محدث فتویٰ

تبصرے