السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ﴿سَمَاوَات﴾ کا لفظ جمع مگر ﴿اَرْضٌ﴾ کا لفظ واحد کے صیغے کے ساتھ استعمال ہوا ہے تو کیا یہ صیغہ واحد کی صورت میں بھی جمع پر دلالت کرتا ہے؟ نیز درج ذیل ارشادِ باری تعالیٰ کی تفسیر کیا ہے؟
﴿ما أَشهَدتُهُم خَلقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَلا خَلقَ أَنفُسِهِم ...﴿٥١﴾... سورة الكهف
’’ میں نے انہیں آسمانوں وزمین کی پیدائش کے وقت موجود نہیں رکھا تھا اور نہ خود ان کی اپنی پیدائش میں۔‘‘
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل نے جو یہ ذکر کیا ہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں {سَمَاوَاتٍ} کا لفظ جمع مگر {اَرْضٌ}کا لفظ واحد کے صیغہ کے ساتھ استعمال ہوا ہے تو امر واقع اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی سماوات کا لفظ جمع کے صیغے کے ساتھ ذکر کرتا ہے اور کبھی اسے صیغہ واحد کے ساتھ بھی ذکر کرتا ہے مثلاً ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ لا يَخفىٰ عَلَيهِ شَىءٌ فِى الأَرضِ وَلا فِى السَّماءِ ﴿٥﴾... سورة آل عمران
’’ یقیناً اللہ تعالیٰ پر زمین وآسمان کی کوئی چیز پوشیده نہیں ۔‘‘
اور فرمایا:
﴿يَعلَمُ ما فِى السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ...﴿٤﴾... سورة التغابن
’’ وه آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں ارض (زمین) کا لفظ جمع کی صورت میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ واحد ہی کی صورت میں استعمال ہوا ہے البتہ درج ذیل آیت میں اس کے جمع کی طرف اشارہ ضرور ہے:
﴿اللَّـهُ الَّذى خَلَقَ سَبعَ سَمـٰوٰتٍ وَمِنَ الأَرضِ مِثلَهُنَّ ... ﴿١٢﴾... سورة الطلاق
’’ اللہ وه ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل زمینیں بھی۔۔‘‘
یہاں مِثْلِیَّتْ صفات اور کیفیت میں تو ہو نہیں سکتی کیونکہ آسمان اور زمین کے درمیان بہت بڑا فرق ہے لہٰذا یہ مِثْلِیَّتْ صرف عدد میں ہوسکتی ہے، ہمیں سنت سے اس کی وضاحت ملتی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ہے:
«مَنِ اقْتَطَعَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا، طَوَّقَهُ اللهُ إِيَّاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ»(صحیح البخاری بدء الخلق باب ماجاء فی سبع الارضین حدیث3198وصحیح مسلم المساقاة باب تحریم الظلم وغصب الارض وغیرها حدیث 1610والفظ له)
’’جوشخص ظلم سے کسی ایک بالشت زمین پر قبضہ کرلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کےدن اسے ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا۔‘‘
تو گویا قرآن مجید میں اگرچہ زمین کے لیے مفرد کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر اس سے مراد جنس زمین ہے، جس کے لیے واحد اور جمع دونوں کے صیغے استعمال ہوسکتے ہیں۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ آیت کریمہ:
﴿ما أَشهَدتُهُم خَلقَ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ وَلا خَلقَ أَنفُسِهِم... ﴿٥١﴾... سورة الكهف
’’ میں نے انہیں آسمانوں وزمین کی پیدائش کے وقت موجود نہیں رکھا تھا اور نہ خود ان کی اپنی پیدائش میں۔‘‘
کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی پیدائش کے وقت مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں بلایا تھا لہٰذا یہ صحیح نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کی عبادت کی جائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کسی کو اس کی اپنی پیدائش کے وقت بھی نہیں بلایا تھا، لہٰذا جب وہ اپنی پیدائش کے وقت بھی حاضر نہیں تھا تو وہ غیر اللہ کی عبادت کیونکر کرتا ہے؟ جب تم اپنے بارے میں یا کسی دوسرے کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں اور نہ تم آسمانوں یا زمین کی کسی چیز کو پیدا ہی کرسکتے ہو، جس طرح کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے۔ سورۂ طور میں ارشاد ہے:
﴿أَم خُلِقوا مِن غَيرِ شَىءٍ أَم هُمُ الخـٰلِقونَ ﴿٣٥﴾ أَم خَلَقُوا السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضَ ۚ بَل لا يوقِنونَ ﴿٣٦﴾... سورة الطور
’’ کیا یہ بغیر کسی (پیدا کرنے والے) کے خود بخود پیدا ہوگئے ہیں؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ (35) کیا انہوں نے ہی آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے؟ بلکہ یہ یقین نہ کرنے والے لوگ ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان کے اور آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے کا ذکر فرمایا ہے تو معلوم ہوا کہ وہ اللہ وحدہ لا شریک لہ ہی خالق اور صرف اور صرف وہی مستحق عبادت ہے کیونکہ یہ معبودان باطلہ تو خلق میں اللہ تعالیٰ کے شریک نہ تھے بلکہ انہوں نے خلق کا مشاہدہ بھی نہیں کیا، لہٰذا تم انہیں عبادت میں کیونکر شریک ٹھہراتے ہو؟
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب