سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(493) ڈاڑھی کی لمبائی کی حد

  • 12512
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1318

سوال

(493) ڈاڑھی کی لمبائی کی حد

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کی داڑھی اتنی طویل ہے کہ ناف کے نیچے تک ہے اورگھنی اتنی کہ رخسار بھی نظرنہیں آتے ۔ایسی صورت حال کے پیش نظر داڑھی کورخساروں سے صاف کرنااورناف کے نیچے سے کاٹ دینادرست ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

داڑھی کے متعلق ہماراموقف یہ ہے کہ اسے اپنی حالت پررہنے دیاجائے اوراس کے ساتھ کسی طرف سے بھی چھیڑچھاڑ نہ کی جائے ۔کیونکہ

1۔  اس کے متعلق امر نبوی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کاامروجوب کے لئے ہے اِلاَّیہ کہ قرینہ صارفہ ہو۔

2۔  اس سے چھیڑچھاڑ کرنایہودی ونصاری اورمشرکین ومجوس سے ہمنوائی ہے جبکہ ہمیں ان کی اس سلسلہ میں مخالفت کرنے کاحکم ہے۔

3۔  اس کی کانٹ چھانٹ تخلیق الٰہیہ میں تبدیلی کرناہے جس سے ہمیں منع کیاگیا ہے کیونکہ ایساکرناایک شیطانی حربہ ہے۔ [۴/النسآء:۱۱۹]

4۔   داڑھی کابڑھاناامورفطرت ہے، اس لئے داڑھی کوفطرتی حالت میں رہنے دیاجائے اوراس کے غیرفطرتی عمل کو نہ کیاجائے ۔

5۔  ہمیں نسوانی مشابہت اختیارکرنے سے منع کیاگیا ہے جبکہ داڑھی منڈوانے سے عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے ۔ اس سے محفوظ رہنے کایہی طریقہ ہے کہ اسے اپنی حالت پر رہنے دیا جائے۔

6۔  خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز  رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق داڑھی منڈوانا’’مثلہ ‘‘کے مترادف ہے اوراس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع فرمایا ہے۔

7۔  داڑھی منڈواناایساقبیح فعل ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مرتکب دوایرانی باشندوں کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی گوارانہیں کیاتھا۔

صورت مسئولہ میں بعض اہل علم بایں طورپر نرم گوشہ رکھتے ہیں کہ

1۔  داڑھی کے متعلق مندرجہ ذیل تین صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے امرنبوی منقول ہے ۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما     [صحیح بخاری ،اللباس : ۵۸۹۲]

حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ     [صحیح مسلم ، الطہارۃ :۶۰۳]

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما     [مجمع الزوائد ص: ۱۶۹، ج۵]

جبکہ یہ تینوں اکابرکے متعلق روایات میں ہے کہ بالعموم یاخاص مواقع پرایک مشت سے زائد داڑھی اوررخساروں کے بال کٹوا دیتے تھے۔ [حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما صحیح بخاری :۵۹۲حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  طبقات ابن سعد، ص:۳۳۴، ج۴، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مصنف ابن ابی شیبہ، ص:۸۵، ج۴]

اگرچہ ہمارے نزدیک قابل عمل راوی کی روایت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت ہے۔

2۔  امام مالک  رحمہ اللہ سے سوال ہواکہ آدمی کی داڑھی بہت زیادہ طویل ہوجائے توکیاکرے ؟آپ  رحمہ اللہ نے فتوی دیا کہ ایسی حالت میں اسے اعتدال پرلانے کے لئے کاٹاجاسکتا ہے ۔     [باجی شرح مؤطا،ص: ۲۲۶،ج۷]

3۔  حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام طبری کے حوالہ سے لکھاہے کہ اگرآدمی اپنی داڑھی کواپنی حالت پرچھوڑدے اوراس کاطول و عرض اس حدتک بڑھ جائے کہ لوگوں کے ہاں ’’اضحو کہ روزگار‘‘بن جائے توایسی حالت میں اسے کاٹاجاسکتا ہے۔[فتح الباری ،ص: ۴۳۰ج، ۱۰]

4۔  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ ان کے پاس ایک شخص کولایاگیا جس کی داڑھی حدسے بڑھی ہوئی تھی تو      آپ رضی اللہ عنہ   نے معقول حدکے نیچے سے اسے کاٹ دیاتھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبری کے حوالہ سے بیان کیاہے ۔    [واللہ اعلم ]

اگرکوئی اس قسم کے دلائل سے مطمئن ہوتو مذکورہ شخص کے متعلق نرم گوشہ رکھنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ بصورت دیگر اسے استقامت کامظاہرہ کرناچاہیے تاکہ سنت کی حفاظت پراللہ کے ہاں بے پایاں اجروثواب کی امید کی جاسکے ۔ہم نے ایسے بزرگ بھی دیکھے ہیں کہ دوران نماز جب رکوع کرتے تھے توان کی داڑھی زمین پرآلگتی تھی ۔اب وہ دنیاسے رخصت ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے ہاں کروٹ کروٹ رحمت سے نوازے۔ آمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:488

تبصرے