السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فرقہ بازی کیا ہے؟ جسے اللہ تعالیٰ نے معیوب قرار دیا ہے اور حکومت، نیز عوام الناس بھی اس کی مذمت کرتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل تفریق کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور خود فرقوں میں بٹ گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔‘‘ [۶/الانعام:۱۵۹]
فرقہ بازی ایک ایسی لعنت او رباعث مذمت ہے جو ملت کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ جب لوگوں میں یہ عادات بد پائی جاتی ہیں، ان کی ساکھ اور عزت دنیا کی نظروں میں گر جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی کو اپنے عذاب کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب نازل کرے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے کوئی عذاب مسلط کر دے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک فرقے کو دوسرے سے لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ [۶/الانعام:۶۵]
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت بالا میںذکر کردہ تمام قسم کے عذابوں سے اللہ کی پناہ مانگی اور میری امت پر اس قسم کے عذاب نہ آئیں۔ چنانچہ پہلی اور دوسری قسم کے عذابوں کے متعلق آپ کی دعا قبول ہو گئی مگر تیسری قسم کے عذاب جو فرقہ بندی سے متعلق ہے، دعا قبول نہ ہوئی بلکہ آپ نے اس عذاب کو پہلے دونوں عذابوں کی نسبت آسان قرار دیا ہے۔[صحیح بخاری،التفسیر:۴۶۲۸]
اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی دو قسم کا عذاب اس امت کے کلی استیصال کے لئے نہیں آئے گا، البتہ جزوی طور پر آسکتا ہے۔ رہا تیسری قسم کا عذاب تو وہ اس امت میں موجود ہے جس نے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے مسلمانوں کو ایک مغلوب قوم بنا رکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیشین گوئی فرمایا تھا:
’’ بنی اسرائیل بہتر (۷۲)فرقوں میں تقسیم ہو گئے جبکہ میری امت تہتر (۷۳)فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سب فرقے جہنم کا ایندھن ہوں گے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ نجات یافتہ کون ہو ں گے؟ آپ نے فرمایا :’’جو اس راہ پر چلیں گے جس راہ پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘ [ترمذی، الایمان،۲۶۴۱]
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معیار کی نشاندہی فرمادی ہے جو قیامت کے دن اس کے ہاں اس کے عذاب سے نجات کا باعث ہو گا۔ قرآن پاک میں اسے صراط مستقیم اور سبیل المؤمنین کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرقہ بازوں کو مشرکین کے لفظ سے ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور ان مشرکین سے نہ ہو جائو جنہوں نے اپنا دین الگ کرلیا اور گروہوں میں بٹ گئے ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے۔‘‘ [۳۰/الروم:۳۲]
اس کی وجہ یہ ہے کہ جس مذہبی یا سیاسی فرقہ کا آغاز بدعتی عقیدہ یا بدعتی عمل سے ہو تاہے، مثلا: کسی رسول یا بزرگ کو اس کے اصلی مقام سے اٹھا کر اللہ کی صفات میں شریک بنا دینا، یہی وہ غلو فی الدین ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔
پھر یہ فرقہ بازی عموماً دو قسم کی ہوتی ہے۔
٭ ایک مذہبی جیسے کسی امام کی تقلید میں بایں طور انتہا پسندی سے کام لینا کہ اس امام کو منصب رسالت پر بٹھا دینا گویا وہ معصوم عن الخطا ہے یا کسی معمولی اختلاف کو کفر و اسلام کی بنیاد قرار دینا یا کسی اہم اختلاف کو باہمی رواداری کے خلاف خیال کرنا وغیرہ۔
٭ دوسری سیاسی جیسے علاقائی، قومی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنا۔ درج ذیل عقائد اس فرقہ بازی کی زد میں آتے ہیں۔
1۔ اللہ کے بجائے عوام کی بالادستی اور انہیں طاقت کا سرچشمہ قرار دینا۔ 2۔ اللہ کی ذات اور انبیاf کے معجزات کا انکار۔
3۔ کچھ ائمہ کو معصوم اور مامون قرار دینا۔
الغرض جتنے بھی فرقے ہیں، خواہ مذہبی ہوں یا سیاسی،ان کا کوئی نہ کوئی عقیدہ یا عمل ضرور کتاب و سنت کے خلاف ہو گا۔ بدعی عمل کا تعلق سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوتا لہٰذا کسی سنت کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کردینا یا کسی نئے کام کو ثواب کی نیت سے شروع کر دینا اس کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ دین میں پہلے کمی رہ گئی تھی جو اس ترمیم یا اضافہ سے پوری کی جارہی ہے۔ اعاذنا اللّٰہ عنہ اگرمزید غور کیا جائے تو گروہ بندی کی تہہ میں دو ہی اغراض پوشیدہ ہوتی ہیں۔ ایک مال کی محبت، دوسرے اقتدار کی چاہت، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بکریوں کے کسی ریوڑ میں دو بھوکے بھیڑیے اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنا مال کی محبت اور منصب کی چاہت کسی کے ایمان کو برباد کرتی ہیں۔‘‘ [ترمذی، الزہد:۲۳۷۶]
اس فرقہ بندی سے محفوظ رہنے کا صرف یہی طریقہ ہے کہ قرآن اور صحیح احادیث کے مطابق زندگی بسر کی جائے اور اس سلسلہ میں دائیں، بائیں جھانکنے سے اجتناب کیا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب