سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(485) بنک میں ملازمت کرنا

  • 12504
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1161

سوال

(485) بنک میں ملازمت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں ایک دینی ادارہ میں زیر تعلیم ہوں اور میرے والد بنک ملازم ہیں، جبکہ ہمیں علم ہے کہ بنک کی ملازمت شرعاً جائز نہیں ہے اور والد کی کمائی بھی درست نہیں ہے، اسی سے وہ مجھے خرچہ دیتے ہیں اور گھر کے اخراجات چلاتے ہیں، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہماری دعائوں اور عبادات پر والد کی کمائی اثر انداز ہو گی یا نہیں؟ اس سلسلہ میں والدہ صاحبہ خاصی پریشان ہیں، والد صاحب سے کئی مرتبہ گفتگو بھی ہوئی ہے، لیکن وہ بنک کی ملازمت چھوڑنے پر آمادہ ہوتے نظر نہیں آتے اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ رزق استعمال کرے او راپنے بچوں کو حلال رزق کھلائے، حرام مال سے اخراجات پورے کرنا کئی ایک حوادث کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، ایسے شخص کی عبادات ہی قبول نہیں کی جاتیں جو حرام مال استعمال کرنے کا عادی ہو، صورت مسئولہ میں اگر بنک ملازم کی اولاد کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، جس سے وہ اپنا پیٹ پال سکیں یا گھر کے اخراجات چلا سکیں تو ایسے حالات میں بنک کی تنخواہ سے کھانا ، پینا اور اس سے کپڑے پہننا کوئی گناہ نہیں ہو گا، کیونکہ وہ مجبور ہیں اور مجبوری کے وقت حرام مال کھانے کی اجازت ہے، لیکن انہیں مندرجہ ذیل اشیاء کا خیال رکھنا ضروری ہے:

1۔  اہل خانہ کو چاہیے کہ وہ اپنے والد یا خاوند کو نصیحت کرتے رہیں اور اسے اس ملازمت کے ناجائز ہونے کا یقین دلائیں تاکہ وہ اس سے اجتناب کرے، ممکن ہے کہ ان کی وعظ ونصیحت سے حرام مال کو ترک کردے اور اس سے توبہ کرے۔

2۔  اس کمائی کو زیادہ مقدار میں خرچ نہ کریں، صرف اسی قدر لیں جس سے گزارا چل جائے، نیزاس کمائی سے صدقہ و خیرات بھی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود پاک ہے اور پاکیزہ چیز کو ہی قبول کرتا ہے۔

3۔  اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں،جب حالات ساز گار ہو جائیں کہ والد کے سرمایہ کی ضرورت نہ رہے تو اس حرام کمائی سے اجتناب کریں، اس لئے انہیں بہت محنت سے کام لینا ہو گا۔

4۔  اگر حرام سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہو تو امید ہے کہ اہل خانہ کی عبادات اور دعائوں پر یہ حرام مال اثر انداز نہیں ہو گا، کیونکہ ان کے پاس طاقت ہی نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا‘‘  [۲/البقرۃ:۲۸۵]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ سے سود کا کاروبار کرنے والے کے متعلق سوال کیا گیا کہ وہ فوت ہو گیا ہے اور اس نے اپنے پیچھے اولاد اور مال چھوڑا ہے اور اولاد کو اپنے والد کے سودی کام کا بھی علم ہے تو کیا ان کے لئے یہ مال بطور وراثت حلال ہے؟ شیخ الاسلام نے جواب دیا: ’’اولاد کو سود کی جس مقدار کا علم ہے، وہ اس سے نکال دے اور اگر ممکن ہو تو وہ لوگوں کو واپس کرے، اسے صدقہ نہ کرے اور جو باقی ہے اسے وراثت کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جس مقدار میں شبہ ہو اس کے متعلق بہتر ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر مال میں حرام اور حلال دونوں کی ملاوٹ ہو اور اس کی مقدار کا علم نہیں تو اس کے دو حصے کرلینے چاہییں، یعنی نصف حلال اور نصف حرام کا، حلال حصہ کو استعمال کرلیا جائے۔     [مجموعہ الفتاویٰ، ص: ۳۰۷، ج۲۹]

بہرحال والد کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں اہل علم کا تعاون بھی لیا جاسکتا ہے،اس کے دوست و احباب سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے، تاکہ اسے مطمئن کرکے حرام کمائی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:474

تبصرے