سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(484) خریدا ہوا مال قبضہ میں دینے سے پہلے فروخت کرنا

  • 12503
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1237

سوال

(484) خریدا ہوا مال قبضہ میں دینے سے پہلے فروخت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے بکر سے فون پرسونے کا سودا کیا، قیمت اور وزن متعین ہے، لیکن قیمت کی ادائیگی ایک ہفتہ کے ادھار پر طے ہوئی، دو تین دن بعد بکر نے مجھے فون کیا کہ تمہارا سونا فروخت کردوں، جبکہ میں نے اس پر قبضہ نہیں کیا اور نہ اس کی قیمت ادا کی ہے۔ کیا اس طرح خرید و فروخت کا معاملہ جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں مارکیٹ اور منڈیوں میں اکثر سودے اسی طرح ہو تے ہیں کہ فون پر مال خریدا جاتاہے، پھر اس کو دیکھے یا قبضہ میں لئے بغیر آگے فروخت کردیا جاتاہے۔ حالانکہ شرعاً ایسا جائز نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لوگ بازار کے بلند مقام میں غلہ خریدتے اور اسی جگہ فروخت کردیتے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انہیں منع فرمایا کہ ’’غلہ وہیں فروخت نہ کریں بلکہ وہاں سے کہیں اور منتقل کرنے کے بعد فروخت کریں۔‘‘     [مسند امام احمد، ص:۵۶،ج۱]

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق ہر چیز شرعی اعتبار سے غلہ کی مانند ہے۔    [بیہقی، ص:۳۱۲،ج۵]

بلکہ زید بن ثابت  رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے سودے کو اس جگہ بیچنے سے منع فرمایا ہے جہاں اسے خریدا جاتا ہو، حتی کہ اسے اپنے گھر میں لے جائیں ۔     [مستدرک حاکم، ص:۴۰،ج۲]

ایک روایت میں ہے کہ ’’جب تم کوئی چیز خریدو تو اسے قبضے میں لینے سے قبل مت فروخت کرو۔‘‘ (مسند امام احمد، ص: ۴۰۳، ج۳)

ان احادیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خرید کردہ چیز جب تک اپنے قبضہ میں نہ لی جائے اس کا آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ صورت مسئولہ میں چونکہ خریدار نے ابھی سونے پر قبضہ نہیں کیا، اس لئے اس کا آگے خود یا کسی کے ذریعے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:473

تبصرے