سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(472) غیر مسلموں سے معاشی تعلق رکھنا

  • 12491
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1318

سوال

(472) غیر مسلموں سے معاشی تعلق رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں مواصلات کی ایک کمپنی ٹیلی نار کے لئے ٹاور کی جگہ مخصوص کی گئی جبکہ بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے متعلق گستاخانہ خاکے شائع کرنے میں ڈنمارک کا ملک پیش پیش تھا۔ جن سے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا تھا، لہٰذا اس ملک کی کمپنی کو ٹاور لگانے کی اجازت دینا اس کے معاشی بائیکاٹ کے خلاف ہے، جس کا فیصلہ کیا گیا تھا شرعی اعتبار سے اس مسئلہ کی وضاحت کریں تاکہ ہم اس کمپنی سے تعاون کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کوئی فیصلہ کر سکیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سورۂ ممتحنہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق دو اقسام کی نشاندہی کی ہے ۔ وہ کافر جو اسلام اور اہل اسلام کو نیچا دکھانے میں کوشا ں ہیں اور ان سے برسر پیکار ہیں، وہ کافر جو اپنے کفر پر توہیں لیکن اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں شریک نہیں ہیں۔کفار سے تعلقات کی بھی حسب ذیل تین اقسام ہیں:

1۔  موالات:  دوستی اور قلبی تعلقات رکھنا، یہ تو کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں درست نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس سے سختی سے روکا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ تم اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائو۔‘‘   (۳/آل عمران: ۲۸)

2۔  مدارات: ظاہری طور پر خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ، رفع ضرر او ر مصلحت دین کے پیش نظر کفار کے ساتھ اس قسم کا تعلق رکھا جاسکتا ہے۔ ذاتی مفاد یا دینوی مصلحت کے لئے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔

3۔  مواسات:  ضرورت مند پراحسان اور اس کی نفع رسائی کا اقدام یہ صرف ایسے کفار کے ساتھ کیا جاسکتاہے جو اہل حرب نہ ہوں، یعنی اہل اسلام سے برسرپیکار نہ ہوں۔ اگر کفار اہل اسلام کی مخالفت کرتے ہوئے میدان میں اتر آئیں اور اہل اسلام کو تکلیف دینے کے لئے منصوبہ سازی میں سرگرم عمل ہو ں تو ایسے کفار کے ساتھ مواسات درست نہیں۔ سورۂ ممتحنہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کافر دشمن اور کافر غیر دشمن ہو ایک ہی درجہ میں رکھنا درست نہیں ہے بلکہ ان میں فرق کرنا چاہیے۔ خیر پسند لوگوں کے ساتھ خیر خواہانہ تعلقات کو جائز قرار دیا گیا ہے، خواہ وہ کسی مذہب یا دین سے تعلق رکھتے ہوں۔ اس تمہیدی گزارش کے بعد ہم پیش کردہ سوال کا جواب دیتے ہیں جن لوگوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں ان سے بائیکاٹ کرنا ہمارا ایمانی تقاضا ہے۔ اسلامی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کریں، اس سلسلہ میں سعودی عرب کی مثال پیش کی جاسکتی ہے، واقعی اس نے مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ایمانی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق ٹیلی نار جو ڈنمارک کی ایک مواصلاتی کمپنی ہے اس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں اس نے پاکستان سے اجازت حاصل کرنے کے لئے تقریباً بیس بائیس ارب روپیہ حکومت پاکستان کو ادا کیا ہے اور پاکستان نے باضابطہ طور پر اسے کام کرنے کی اجازت دی ہے، جن لوگوں نے خاکے شائع کرنے کی مجرمانہ حرکت کی ہے ان کا اس کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کمپنی نے اخبارات میں ان لوگوں سے اظہار بیزاری کا اعلان کیا ہے اور پاکستان میں کئی ایک اہل پاکستان کا اس سے روز گار وابستہ ہے، ایسے حالات میں اس کمپنی سے معاشی بائیکاٹ صحیح نہیں ہے اور ٹاور لگانے میں جو معاہدہ ہوا ہے۔ اس میں رکاوٹیں کھڑی کرنا بھی درست نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:463

تبصرے