السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلام میں لونڈی یا غلام رکھنے کی کیا حیثیت ہے؟ اس کے متعلق پوری وضاحت کریں اور اس کی حدود و قیود سے آگاہ فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دین اسلام نے کئی ایک طریقوں سے غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی ہے۔ جس کے نتیجہ میں آج کل لونڈی سسٹم تقریباً ناپید ہے۔ اس بنا پر ایسے حالات ذہنی مفروضہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے سوالات کا ضروریات زندگی سے کوئی تعلق ہے، تاہم مسئلہ کی وضاحت ہم کئے دیتے ہیں۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ ان پر احسان کرتے ہوئے رواداری کے طور پر انہیں بلا معاوضہ رہا کردیاجائے۔
2۔ ان سے فی نفر مقررہ شرح کے مطابق فدیہ لے کر انہیں چھوڑا جائے۔
3۔ جو مسلمان قیدی دشمن کے ہاں قید ہوں ان سے تبادلہ کرلیا جائے۔
4۔ انہیں مال غنیمت سمجھتے ہوئے مسلمان سپاہیوں میں تقسیم کردیا جائے۔
اس مؤخر الذکر صورت میں گرفتار شدہ عورتوں سے صنفی تعلقات قائم کرنے کے متعلق ہمارے ذہنوں میں بے شمار خدشات اور شکوک و شبہات ہیں، اس لئے اسلام کے مندرجہ ذیل اصول و ضوابط کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔
(الف) حکومت کی طر ف سے کسی سپاہی کولونڈی کے متعلق حقوق ملکیت مل جانا ایسا ہی ہے، جیسا کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کا عقد کسی دوسرے سے کردیتا ہے۔ جس طرح باپ نکاح کے بعد اپنی بیٹی واپس لینے کا مجاز نہیں ہوتا، اس طرح حکومت کو بھی ملکیت دینے کے بعد وہ لونڈی واپس لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اس بنا پر مسلمان سپاہی اس عورت کے ساتھ صنفی تعلقات قائم کرنے کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے اسے ملی ہے۔
(ب) جو عورت جس سپاہی کے حصہ میں آئے صرف وہی اس سے صنفی تعلقات قائم کرسکتاہے، کسی دوسرے شخص کو اسے ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاں، اگرحقیقی مالک کسی کے ساتھ نکاح کردے تو ایسی صورت میں دوسرے کو حق تمتع حاصل ہو جاتا ہے لیکن اس صورت میں مالک اس لونڈی سے دیگر خدمات تو لے سکتا ہے لیکن اسے تمتع کی اجازت نہیں ہو گی۔
(ج)جس شخص کو کسی لونڈی کے متعلق حق ملکیت ملا ہے وہ اس وقت صنفی تعلقات قائم کرسکے گا۔ جب اسے یقین ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے اس کا ضابطہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ایام ماہواری کا انتظار کیا جائے، حمل کی صورت میں وضع حمل تک انتظار کرنا ہو گا۔
(نوٹ) گھریلو خادمائیں اور کاروباری نوکر چاکر، غلام اور لونڈی کے حکم سے خارج ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب