السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ فوت شدگان کے ایصال ثواب یا اپنے گھروں اور فیکٹریوں میں برکت کے لئے قرآن خوانی کراتے ہیں۔ ہمارے اہل حدیث مدارس کے شعبہ تحفیظ القرآن میں یہ سلسلہ موجود ہے کہ بچوں کو قرآن خوانی کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ کیا ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت سے ناواقفیت کی وجہ سے ان دنوں بے شمار ایسی چیزیں دین میں داخل کرلی گئی ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں تھا۔ ان میں سے ایک مروجہ قرآن خوانی بھی ہے، اس کے ذریعے مردوں کو ثواب پہنچانے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ گھروں، فیکٹریوں اور مارکیٹوں میں برکت کے لئے بھی مدارس کے طلباء کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ مردوں کے لئے قرآن خوانی تو ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ دوسرے مزدوروں کی طرح قرآن خواں بھی بآسانی کرایہ پر مل جاتے ہیں۔ حالانکہ میت کے لئے قرآن خوانی نہ تو قرآن سے ثابت ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کہ ’’انسان کے لئے صرف وہی ہے جو اس نے کوشش کی‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے متبعین نے اس آیت کریمہ سے یہ مسئلہ استنباط فرمایا ہے کہ قراء ت قرآن کا ثواب فوت شدگان کو ہدیہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کہ وہ ان کی محنت و کوشش کا نتیجہ نہیں ہے اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو مستحب قرار نہیں دیا ہے اور نہ ہی آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی ظاہری حکم یا اشارے سے اس کی طرف راہنمائی کی ہے اور یہ طریقہ کسی صحابی سے بھی منقول نہیں ہے۔ اگر اس میں نیکی کا کوئی پہلو ہوتا تو وہ ضرور ہم سے پیش قدمی کرتے، نیک کاموں سے متعلق صرف کتاب و سنت پر اکتفا کیا جاتا ہے کسی کے ذاتی فتوی، قیاس یا رائے سے کوئی حکم ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ دعا و صدقہ کا ثواب پہنچنے میں سب کا اتفاق ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس سلسلہ میں واضح ارشادات موجود ہیں۔ [تفسیر ابن کثیر، ص: ۲۵۸، ج۴]
اس طرح مکانات ودکانات میں خیر وبرکت کے لئے خود قرآن پڑھا جاسکتا ہے لیکن اس سلسلہ میں مدارس کے طلباء کی خدمات حاصل کرنا، قرآن خوانی کے بعد دعوت طعام کا اہتمام کرنا قرون اولیٰ سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس نے ہمارے دینی معاملے میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس سے نہیں وہ مردود ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب الصلح: ۲۶۹۷]
لہٰذا ایسے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب