سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(458) حدیث اور کتب حدیث پر تنقید کرنا

  • 12477
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1325

سوال

(458) حدیث اور کتب حدیث پر تنقید کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص حدیث اور کتب حدیث پر اس طرح تنقید کرتا ہے کہ ان کی توہین کا پہلو نمایا ں ہوتا ہے، نیز حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی صحابیت کا بھی منکر ہے، اس کے علاوہ وہ کہتا ہے کہ اسلام میں پہلا اختلاف حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے ڈالا۔ کیا اس طرح کے عقائد رکھنے والے کو مسجد کا ممبر بنایا جاسکتا ہے؟ بالخصوص جبکہ اندیشہ ہو کہ یہ اپنے فاسد عقائد و نظریات دوسرے نمازیوں میں بھی پھیلائے گا، ایسے شخص کے ساتھ تعلقات رکھنا شرعاً کیسا ہے۔ کیا ایسے شخص کو سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا درست ہے، کیا ایسے شخص کو زندیق کہا جاسکتا ہے، نیز زندیق کی شرعی طور پر سزا کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واضح ہو کہ دین اسلام کی بنیاد قرآن اور اس کے بیان(حدیث)پر ہے۔بیان قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مبعوث فرمایا ہے۔ آپ نے اپنے فرمودات و ارشادات او ر سیرت و کردار سے قرآن کریم کی وضاحت اور تشریح کی ہے جو ہمارے پاس کتب حدیث کی شکل میں موجود ہے۔ لیکن دور حاضر کے متجددین کتب حدیث کو ہدف تنقید بنا کر نہ صرف ان دفاتر حدیث کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ اعزاز بھی چھیننا چاہتے ہیں جو خود اللہ تعالیٰ نے آپ  کوعطا فرمایا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمودات کے ذریعہ قرآن کے اجمال کی تفصیل اور اطلاق کی تقلید دور حاضر کے ان معتزلہ و خوارج کو گوارا نہیں۔ وہ صرف اپنی عقل عیار کو معیار بنا کر قرآن کریم کی تشریح کرنا چاہتے ہیں تاکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ اس ضابطہ حیات کو اپنی من مانی تاویلات کی بھینٹ چڑھایا جاسکے۔ ان کے نزدیک حدیث او رکتب حدیث ایک ’’عجمی سازش‘‘ کا حصہ ہیں۔ صورت مسئولہ میں ایک شخص کے متعلق دریافت کیا گیا ہے جو توہین رسالت کے علاوہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کو بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ کو تشتت واختلاف کا موجب گردانتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

                ’’ایسے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں تاآنکہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں۔‘‘     [۴/النسآء: ۴۰]

ایسے شخص کو مسجد یا دینی جماعت کا ممبر بنانا جائز نہیں ہے۔اس کے ساتھ تعلقات اصلاح احوال کے لئے تو رکھے جاسکتے ہیں لیکن اس قسم کے گندے جراثیم آگے منتقل ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے عضو کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے، یعنی ایسے شخص سے روابط ختم کرلئے جائیں ایسے شخص کو سلام کرنے میں ابتدا نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر وہ سلام کہتا ہے تو اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ بلا شبہ ایسا انسان زندیق و ملحد ہے اور اسلامی حکومت میں ایسے شخص کی سزا قتل ہے اور اس قسم کی سزا کا نفاذ بھی اسلامی حکومت کا کام ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:452

تبصرے