سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(457) سونے کے رنگ کی گھڑی پہننا

  • 12476
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1233

سوال

(457) سونے کے رنگ کی گھڑی پہننا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گولڈن کلر یعنی سونے کے رنگ کی کلائی گھڑی پہننا جائز ہے یا نہیں، اگرچہ اس کا چین سونے کا نہیں ہوتا لیکن اس پر سونے کا پانی ضرور ہوتا ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان سے دریافت کریں کہ کس نے اللہ تعالیٰ کی اس زینت کو حرام کیا ہے، جسے اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیاہے۔    [۷/الأعراف:۳۲]

اس آیت کریمہ کی رو سے انسان کے لئے ہر قسم کی زینت کا استعمال حلال ٹھہرتا ہے لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے ہر قسم کی زینت مطلق طور پر حلال نہیں ہے بلکہ اس کے لئے کچھ حدود ہیں۔ جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

٭  اس زینت کی حرمت نص قطعی سے ثابت نہ ہو، جیسا کہ سونے اور ریشم کے متعلق حدیث میں ہے کہ ان کا استعما ل عورتوں کے لئے جائز اور مردوں کے لئے ناجائز ہے۔فرمان نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

’’سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لئے حلال اور مردوں کیلئے حرام کیا گیا ہے۔‘‘     [مسند امام احمد، ص:۳۹۲، ج۴]

٭  اس زینت سے نمو د و نمائش اور ریا کاری مقصودنہ ہو ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’مجھے تمہارے متعلق زیادہ اندیشہ شرک اصغر، یعنی ریاکاری میں مبتلا ہوجانے کا ہے۔‘‘     [مسند امام احمد، ص:۴۲۸، ج۵]

٭  عورتوں سے مشابہت کرنے کے لئے اس زینت کو استعمال نہ کیا گیا ہو۔ حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔‘‘     [مسند امام احمد، ص:۳۳۹، ج۱]

٭  زینت اختیار کرتے وقت غیر مسلم اقوام کی نقالی مقصود نہ ہو، جیسا کہ ہمارے ہاں بعض منچلے شوق فضول کی خاطر گلے میں صلیب وغیرہ لٹکالیتے ہیں۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے متعدد مرتبہ یہود و نصارٰی کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا، نیز آپ نے فرمایا کہ ’’جو انسان کسی دوسرے کی نقالی کرتا ہے، وہ انہیں سے شمار ہو گا۔‘‘صورت مسئولہ میں مذکورہ بالا حدود و قیود کی پابندی کرتے ہوئے گولڈن کلر، یعنی سونے رنگ جیسی کلائی گھڑی استعمال کی جاسکتی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:452

تبصرے