السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ’’ تین آدمیوں کے لئے بغیرامیر شرعی رہنا جائز نہیں۔‘‘ یہ حدیث کس کتاب میں ہے اس کا مفہوم کیا ہے، نیز وضاحت کریں کہ وہ تین قسم کے لوگ کون کون سے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث مسند امام احمد سنن بیہقی اور ابودائود میں ہے۔ سوال میں مذکورہ الفاظ مجھے نہیں مل سکے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ آبادی سے باہر جب مکین ہوں تو انہیں اپنے میں سے کسی ایک کو امیر بنا لینا چاہیے۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۱۷۷۷، ج ۲]
اس حدیث کا تعلق سفر سے ہے، یعنی دوران سفر کسی کو امیر سفر بنا لینا چاہیے تاکہ اجتماعیت برقرار رہے اور نظم و ضبط کے ساتھ سفر جاری رکھ سکیں۔ چنانچہ حدیث میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب تین آدمی سفر کو نکلیں تو کسی ایک کو امیر ضرور بنا لیں۔ ‘‘ [ابودائود، الجہاد،۲۶۰۸]
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی تو وہ سفر میں تھے تو ان کے شاگرد نافع رحمہ اللہ نے عرض کیا کہ اس حدیث کے پیش نظر آپ ہمارے امیر ہیں۔ [بیہقی،ص:۲۵۷، ج۵]
واضح رہے کہ اس قسم کی امارات ’’امارات صغریٰ‘‘ کہلاتی ہیں۔ جس میں سفر کی زندگی کو ایک ضابطہ سے ادا کیا جاتا ہے، پھر انسان کو امارات کبریٰ کے قیام کے لئے کوشاں رہنا چاہیے۔ جسے قرآن نے ’’اولی الامر‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ اس کی اطاعت مشروط ہوتی ہے۔ جب تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق عمل پیرا ہوں گے۔ ان کی اطاعت ضروری ہے بصورت دیگر ان کی اطاعت ضروری نہیں۔ بہر صورت مندرجہ بالاحدیث سفر سے متعلق ہے کہ سفر کرتے وقت انسان کو چاہیے کہ اپنے سے بہتر کسی شخص کو امیر بنا کر اپنے سفر کو جاری رکھے، اس سے مراد حدود اللہ قائم کرنے والا امیر نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب