السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے کسی شخص سے کچھ رقم لیناتھی ،میرے مطالبہ پراس نے کسی شخص کے ہاتھ روانہ کردی۔ رقم بھیجنے سے پہلے اس نے مجھ سے پوچھا کہ فلاں شخص کے ہاتھ رقم بھیج دوں ،میں نے کہا بھیج دیں، پھراس نے مجھے اطلاع کردی کہ رقم کی ادائیگی کے بعد کسی کے نقصان کاذمہ دارنہیں ہوں ،جوشخص رقم لارہاتھاراستہ میں اس کی جیب کٹ گئی ۔اس طرح وہ رقم مجھے نہیں مل سکی ،اب کیا رقم لانے والے سے مطالبہ کرسکتاہوں؟
٭ میرے کچھ عزیز واقارب انتہائی غریب ہیں ،کیامیں انہیں بتائے بغیر زکوٰۃ سے ان کاتعاون کرسکتاہوں یازکوٰۃ کے متعلق وضاحت کرناضروری ہے ۔
٭ میں نے کسی کاقرض دیناہے ،میں اسے مطلع کردوں کہ میں ادائیگی کی پوزیشن میں نہیں ہوں ،وہ خاموشی اختیارکرلے اور رقم کامطالبہ بھی نہ کرے۔ آیااس کے رویے سے یہ رقم معاف سمجھی جائے گی یااس کی ادائیگی کرناپڑے گی ؟ کتاب وسنت کی روشنی میں ان سوالات کے جوابات دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرض کی رقم مقروض کے ذمے واجب الادا ہوتی ہے، قرض خواہ کے مطالبے پراس نے ادائیگی کابندوبست کردیااوربھیجنے سے قبل اس نے قرض خواہ سے پوچھاکہ آپ کی رقم فلاں شخص کے ہاتھ بھیج دوں؟ اس کے کہنے پراس نے رقم ارسال کر دی۔ اب مقروض بری الذمہ ہے ۔اب سوئے اتفاق سے وہ رقم چوری ہوگئی اورقرض خواہ تک نہ پہنچ سکی ،اس میں رقم لانے والے شخص کوموردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کیونکہ اس کے پاس رقم امانت تھی جواس سے ضائع ہوگئی۔اکثر اہل علم کاموقف ہے کہ امانت کے ضائع ہونے پرکوئی تاوان نہیں بشرطیکہ امانت کی حفاظت میں کوئی کوتاہی نہ کی گئی ہو ۔حضرت ابو بکرصدیق، حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے اسی مؤقف کواختیار کیاہے۔ [مغنی لابن قدامہ، ص: ۲۵۷، ج۹]
اس سلسلہ میں ایک مرفوع حدیث بھی مروی ہے۔ [سنن بیہقی ،ص:۲۸۹ ،ج۶]
ان شواہد کی بنا پر قرض خواہ کو قطعی طورپر یہ حق نہیں ہے کہ وہ رقم لانے والے سے اپنی رقم کامطالبہ کرے، اس میں رقم لانے والابے قصور ہے ۔ [واللہ اعلم]
٭ عزیز واقارب پرزکوٰۃ خرچ کرنابہت فضیلت کاباعث ہے بشرطیکہ جن اقارب پرزکوٰۃ خرچ کرناہے ان کے اخراجات کی ذمہ داری خرچ کرنے والے پر نہ ہو، مثلاً: خاوند اپنی اولاداوربیوی پرزکوٰۃ سے خرچ نہیں کرسکتا ۔کیونکہ ان پرخرچ کرناباپ اورخاوند کی ذمہ داری ہے ۔البتہ بیوی اپنے خاوند پرزکوٰۃ وغیرہ خرچ کرسکتی ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیاہے کہ ’’اقارب کوزکوٰۃ دینا،پھر ایک حدیث بیان کی ہے کہ اقارب پرخرچ کرنے والے کودواجرملتے ہیں، صدقہ خیرات کرنے اورقرابت داری کالحاظ رکھنے کا۔‘‘ [صحیح بخاری ،الزکوٰۃ:۱۴۶۶]
اگرچہ بعض علما کاموقف ہے کہ زکوٰۃ دیتے وقت وضاحت کردیناچاہیے کہ تعاون زکوٰۃ سے کیاجارہا ہے لیکن کتاب وسنت میں ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں مل سکی، جس سے اس قسم کی وضاحت کرنے کاثبوت ملتاہو، اس لئے عزیز واقارب کوزکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ اوراس کے لئے زکوٰۃ کی صراحت کرنے کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں ۔ [واللہ اعلم ]
٭ قرآن کریم میں قرض کے متعلق صراحت ہے کہ اگرمقروض تنگ دست ہوتواسے ادائیگی کے لئے مزید مہلت دی جائے یااسے قرض معاف کردیاجائے ۔لیکن معافی کے لئے ضروری ہے کہ وہ برضاورغبت اوردل کی خوشی سے اسے معاف کرے۔
صورت مسئولہ میں اگرقرض خواہ نے خاموشی اختیار کی ہے تواسے مزید مہلت پرتومحمول کیاجاسکتاہے ۔لیکن اس خاموشی کو معافی کی علامت نہیں قراردیاجاسکتا ۔مقروض کوچاہیے کہ حالات درست ہونے پرقرض خواہ کی رقم واپس کرے یاپھروضاحت کے ساتھ وہ رقم اس سے معاف کرالے موہوم رویے پر قرض کے معاف ہونے کی بنیاد نہ رکھی جائے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب