سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(437) گواہی دینے کا شرعی طریقہ

  • 12456
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1030

سوال

(437) گواہی دینے کا شرعی طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں کچھ دن پہلے ایک قتل ہوا ،میں نے گولی چلنے کی آواز سنی اورایک آدمی کوہاتھ میں بندوق لیے ہوئے بھی دیکھا لیکن گولی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا ،میں نے عدالت میں گواہی دیدی ہے کہ اسی آدمی نے قتل کیاہے ،کیا یہ گواہی شرعاًدرست ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ کی روسے اپنے مشاہدہ کی گواہی دی جاسکتی ہے۔ ظن وتخمین اورقیافہ سے عین ممکن ہے کسی بے گناہ کو دھرلیاجائے ۔چنانچہ حد یث میں بیان ہوا ہے کہ ایک عورت صبح کی نماز کے لئے مسجد میں آنے کی تیاری کررہی تھی۔اچانک کسی نے اس سے زنابالجبر کاارتکاب کرلیااوررات کی تاریکی سے فائدہ اٹھائے ہوئے بھاگ نکلا۔اتفاقاًایک دوسراآدمی وہاں سے گزراتوعورت نے شورمچایا اوردادرسی کے لئے اس سے فریاد کی ،اتنے میں چندآدمی اورآگئے توعورت نے انہیں بھی اپنی مدد کے لئے پکارا ،انہوں نے دوسرے شخص کو پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا اورکہاہم نے اسے جائے وقوعہ سے بھاگتے ہوئے قابوکیاہے ۔عورت نے بھی اس کے خلاف گواہی دے دی کہ اس نے زبردستی میری عزت کولوٹا ہے۔ ملزم نے صفائی پیش کرتے ہوئے کہااس عورت نے مجھے اپنی مددکے لئے پکاراتھا اورمیں وہاں سے متعلقہ شخص کوپکڑنے کے لیے دوڑاتھا لیکن عورت کااصرارتھا کہ یہ خلاف واقعہ بات کہتا ہے اوراصل مجرم یہی ہے ۔بیانات سننے کے بعد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔لوگ اسے رجم کرنے کے لئے لے جارہے تھے کہ ایک آدمی کانپتا ہوا آیااورکہایہ بے گناہ ہے، اصل مجرم میں ہوں۔ میں نے اس عورت سے زناکاارتکاب کیا تھا، لہٰذا اس کے بجائے مجھے رجم کیاجائے۔(نسائی )اس طرح ایک واقعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے دورخلافت میں پیش آیا ۔پولیس نے ایک شخص کواس حالت میں گرفتار کیاکہ اس کے خون آلودہ ہاتھوں میں چھری تھی اورایک مقتول اس کے سامنے خون میں لت پت ہواپڑاتھا ۔اسے حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے ہاں پیش کیاگیا ،حقیقت حال دریافت کرنے پر اس نے اعتراف ’’جرم ‘‘کرلیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فیصلہ دیا کہ اسے جرم قتل کی پاداش میں قتل کردیاجائے ۔جلاد اسے مقتل کی طرف لے جارہاتھا کہ ایک آدمی دوڑتاہوآیا اورکہنے لگا کہ قاتل میں ہوں، لہٰذااس کے بجائے میراسرقلم کردیاجائے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے اقراری مجرم سے کہاکہ جب اصل قاتل یہ ہے توپھر تیرااعتراف جرم کس بنا پر تھا ؟اس نے کہاحالات ہی ایسے تھے اگرمیں اس وقت انکار کرتا تومیری بات کو کون تسلیم کرتا دراصل واقعہ یہ ہے کہ میں پیشہ کے لحاظ سے قصاب ہوں ۔گائے ذبح کرنے کے لئے باہرمیدان میں گیا اسے ذبح کرکے کھال اتاررہاتھا کہ مجھے اچانک پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی میں نے چھری ہاتھ میں لئے ویرانے کارخ کیاتودیکھتاہوں کہ وہاں ایک شخص خون میں لتھڑا پڑا ہے، گھبراہٹ کے عالم میں کھڑاہوکر دیکھ رہاتھا کہ آپ کی پولیس نے اسی حالت میں مجھے گرفتار کرلیا۔     [الطرق الحکمیہ، ص ۵۵]

اس بنا پر سائل نے اگردوسرے شخص کواپنی آنکھوں سے گولی چلاتے ہوئے دیکھا ہے تو اس کی گواہی دی جاسکتی ہے بصورت دیگر کئی ایک خطرات کے جنم لینے کااندیشہ ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:439

تبصرے