السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے بچپن میں ایک عورت سے قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی ،اب میں جب گاؤں جاتا ہوں تو اس کے پاس جاتا ہوں تو اس کی بزرگی کے پیش نظر میں اس کا سرچومتاہوں اورایساادب واحترام کے طورپر کرتاہوں ،کیاشرعی طورپر مجھے اپنی استانی جواب تراسی(83) سال کی ہے ،اس کاسرچومنے کی اجازت ہے؟ قرآن و حدیث کی رو سے میری راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
استاد اورشاگرد کارشتہ بہت مقدس اورعزت و احترام کاحامل ہے، لیکن استاد کی عزت کرتے ہوئے ہمیں شریعت کے دائر ہ میں رہنا چاہیے۔ صورت مسئولہ میں بلاشبہ اپنی استانی کاا حترام کرناچاہیے اوروہ اس احترام کی حق دار ہے لیکن احترام کے طورپر اس کاسرچومنایااس سے مصافحہ کرناجائز نہیں، خواہ وہ عمررسیدہ ہی کیوں نہ ہو اس کااحترام یہ ہے کہ اس کی ضروریات کا خیال رکھاجائے ،کیونکہ وہ استانی محرمات میں سے نہیں ہے، البتہ اس کی خبرگیری کرنے اورسلام کہنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب عورتیں بیعت کے لئے آتیں توان کی خواہش ہوتی کہ مرد وں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کرکے بیعت کریں لیکن آپ ان سے زبانی بیعت لیتے اوروضاحت فرماتے: ’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘ [نسائی، البیعہ :۴۱۸۱]
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان عورتوں کے روحانی باپ ہیں۔ اس کے باوجود آپ نے حز م واحتیاط کے پہلو کومدنظر رکھا ہے۔مذکورہ حدیث میں بیان ہے کہ عمر رسیدہ اورغیرعمررسیدہ تمام عورتوں کوشامل ہے ،بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کابیان اس سلسلہ میں بہت واضح ہے کہ انہوں نے فرمایا:’’اللہ کی قسم !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو چھواتک نہیں ۔‘‘[ابوداؤد ، الامارۃ :۲۹۴۱]
ان تصریحات کی روشنی میں کسی اجنبی مرد کے لئے جائز نہیں ہے ۔کہ وہ کسی اجنبی عورت کاسرچھومے یااس سے مصافحہ کرے خواہ وہ اس کی استانی ہی کیوں نہ ہو ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے اسے نظراندازکرکے عزت و احترام کے خودساختہ ضابطوں پرعمل کرناخودکوہلاکت میں ڈالنا ہے، البتہ استاد کے حقوق کوفراموش نہیں کرناچاہیے اوراس کے احترام میں کمی نہیں آنی چاہیے، شاگرد کوچاہیے کہ وہ اپنے استاد(خواہ مرد ہو یاعورت ) کی خبرگیری کرتارہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب