سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(418) نکاح سے پہلے خاوند کی خاص بیماری ظاہر ہونا

  • 12429
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1000

سوال

(418) نکاح سے پہلے خاوند کی خاص بیماری ظاہر ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے بھانجے کی شادی میری بھتیجی کے ساتھ ہوناطے پائی ،منگنی وغیرہ تین سال قبل ہوچکی ہے جبکہ نکاح ۲۲دسمبر ۲۰۰۴ء کومتوقع ہے۔شو مئی قسمت سے میرے بھانجے نے ازراہ ہمدردی کسی کواپناخون دینے کاارادہ کیا،جب خون چیک کرایا تو پتہ چلا کہ اسے ہیپاٹایٹس سی کامرض ہے کچھ ڈاکٹر حضرات کی رائے ہے کہ بھانجے کی شادی ا س بھتیجی سے نہ کی جائے ،کیونکہ شادی کے بعد بیماری کے جراثیم بھتیجی میں منتقل ہوسکتے ہیں اوراس کے لئے جان لیواثابت ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر بھتیجی کے والدین اس شادی سے خوف زدہ ہیں کہ اس کے نکاح سے ہماری بیٹی زیادہ متاثر ہوگی ،شادی نہ ہونے سے یہ بھی اندیشہ ہے کہ وہ قریبی رشتہ داروں کے درمیان جدائی اورقطع تعلقی پیداہوجائے۔ برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں دونوں خاندانوں کی صحیح راہنمائی فرمائیں آپ کے جواب کا شدت سے انتظار ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دورجاہلیت میں توہم پرستی عام تھی ،یعنی بیماریوں کے متعلق ان کاعقیدہ تھا کہ وہ اللہ کے حکم سے بالا بالاذاتی اورطبعی طورپر معتدی ہیں گویا وہ اڑکردوسروں کوچمٹ جاتی ہیں ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کاابطال کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی ۔‘‘     [صحیح بخاری ،الطب :۵۷۷۲]

اس حدیث میں واضح مفہوم یہ ہے کہ کوئی بیماری طبع کے اعتبار سے دوسروں کو نہیں لگتی ، بلکہ اللہ کے حکم اوراس کی تقدیر سے دوسروں کولگتی ہے، جیساکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دورجاہلیت کے عقیدہ فاسد کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہوتی۔‘‘ توایک اعرابی کھڑاہوکرعرض کرنے لگا: ہمارے اونٹ ریتلے میدان میں ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں جب ان کے ہاں کوئی خارشی اونٹ آجاتا ہے توسب اونٹ خارش زدہ ہوجاتے ہیں، اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’پہلے اونٹ کوخارشی کس نے بنایا تھا۔‘‘     [صحیح بخاری ،الطب:۵۷۷۵]

آپ کایہ جواب انتہائی حکمت بھراتھا کیونکہ اگروہ جواب دیتا کہ پہلے اونٹ کوبھی کسی دوسرے اونٹ سے خارش کی بیماری لگی تھی تویہ سلسلہ لامتناہی ہو جاتا اور اگر یہ جواب دیتا کہ جس ہستی نے پہلے اونٹ کوخارشی بنایا اسی نے دوسرے میں خارش پیداکردی تویہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے تمام اونٹوں میں یہ فعل جاری کیاہے کیونکہ وہ ہرچیز پرقادرہے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے علم سے بھی اس جاہلانہ عقیدہ کی بیخ کنی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے ایک مجذوم، یعنی کوڑھی کاہاتھ پکڑااوراسے اپنے ساتھ کھاناکھلانے کے لئے اپنے پیالہ پر ہی بٹھالیا اورفرمایا :’’اللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے اوراس کانام لے کر کھاؤ۔‘‘  [ترمذی :۱۸۱۷]

صدیقہ کائنات حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا کی سیرت طیبہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، چنانچہ ایک غلام کوڑھ کی مرض میں مبتلاتھا وہ آپ کے برتنوں میں کھاتا اورآپ ہی کے پیالہ میں پانی پیتا اوربعض دفعہ آپ کے بستر پرلیٹ بھی جاتا تھا۔ [فتح الباری،ص :۱۹۷،ج۱۰ ]

ان احادیث وواقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے امراض کے وبائی طورپرلگ جانے کی نفی فرمائی ہے ۔البتہ ان کے بالاسباب متعدی ہونے کااثبات فرمایا ہے، یعنی اصل موثر حقیقی تواللہ کی ذات گرامی ہے اوراس نے بعض ایسے اسباب پیداکئے ہیں جن کے پیش نظر امراض معتدی ہو جاتے ہیں، جیساکہ ایک روایت میں ہے کہ جب آپ نے امراض کے ذاتی طورپرمتعدی ہونے کی نفی فرمائی توحدیث کے آخر میں فرمایا کہ ’’مجذوم، یعنی کوڑھی انسان سے اس طرح بھاگوجس طرح شیرسے بھاگتے ہو۔‘‘ [صحیح بخاری ،الطب :۵۷۰۷]

نیزآپ نے ضعیف الاعتقاد لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے ایسافرمایاکہ اللہ کی تقدیر کے سبب بیماری لگ جانے سے ان کے عقیدہ میں مزیدخرابی نہ پیداہوکہ وہ کہنے لگیں: ’’ہمیں تو فلاں شخص سے بیماری لگی ہے ‘‘حالانکہ بیماری لگانے والااللہ ہے۔ اس موقف کی تائید ایک روایت سے ہوتی ہے کہ جب آپ نے امراض کے متعدی ہونے کی نفی فرمائی توآخرمیں فرمایا:’’بیماراونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس مت لے جاؤ۔‘‘     [صحیح بخاری ،الطب :۵۷۷۱]

امراض کے بالاسباب متعدی ہونے اورضعیف الاعتقاد لوگوں کے عقائد کی حفاظت کے پیش نظر آپ نے فرمایا: ’’جس علاقہ میں طاعون کی وباپھیلی ہووہاں مت جاؤ اوراگرتم وہاں رہائش رکھے ہوئے ہوتوراہ فرار اختیارکرتے ہوئے وہاں سے مت نکلو۔‘‘     [صحیح بخاری ،الطب :۵۷۳۰]

امراض کے بالاسباب متعدی ہونے میں بھی اس بات کاخیال رکھناچاہیے کہ اصل مؤثرحقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے ضروری نہیں ہے کہ سبب کی موجودگی میں بیماری بھی آموجودہوکیونکہ بسااوقات ایساہوتا ہے کہ سبب موجودہوتا ہے لیکن بیماری نہیں آتی،بیماری کاآنایانہ آنااللہ تعالیٰ کی مشیئت پرموقوف ہے اگروہ چاہے توسبب کومؤثر کرکے وہاں بیماری پیداکردے ، اگر چاہے توسبب کوغیرمؤثر کرکے وہاں بیماری پیدانہ کرے۔     [فتح الباری، ص: ۱۹۸، ج۱۰]

اس بات کا ہم خودبھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ جس علاقہ میں وبائی امراض پھوٹ پڑتی ہیں وہاں تمام لوگ ہی اس کاشکار نہیں ہوجاتے بلکہ اکثروپیشتر ان کے اثرات سے محفوظ رہتے ہیں۔ طبی لحاظ سے اس کی تعبیر یوں کی جاسکتی ہے کہ جن لوگوں میں قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے وہ بیماری کامقابلہ کرکے اس سے محفوظ رہتے ہیں اورجن میں یہ قوت کم ہوتی ہے وہ بیماری کالقمہ بن جاتے ہیں۔ اس وضاحت کے بعد ہم مذکورہ سوال کاجائز ہ لیتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا کہ مغربی تہذیب کے علمبردار (یہودونصاریٰ )یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان اعتقادی ،عملی اوراخلاقی ومالی اعتبارسے مضبوط ہوں ،وہ آئے دن انہیں کمزور کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں ۔ہمارے خیال میں ہیپاٹائٹس کے متعلق میڈیاپرشوروغل اورچیخ وپکاربھی مسلمانوں کو اعتقادی اورمالی لحاظ سے کمزورکرنے کاایک مؤثر اورسوچاسمجھامنصوبہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے اس کے متعلق غیرفطرتی چرچا شروع ہوا ہے ،گھروں میں کوئی نہ کوئی اس مرض کاشکار ہے۔ایک گھر میں رہتے ہوئے بھائی ،بہن ،بیٹا،باپ ،ماں اوربیوی خاوند اس اچھوت میں مبتلا ہوگئے ہیں، پہلے تواس کے ٹیسٹ بہت مہنگے ہیں ہزاروں روپیہ ان کی نذر ہوجاتا ہے پھراس کاعلاج اس قدر گراں ہے کہ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ جوگھر کے باشندے اس مرض سے محفوظ ہیں انہیں حفاظتی تدابیرکے چکر میں ڈال کر پھانس لیاجاتاہے ۔حفاظتی ٹیکے بہت مہنگے اوربڑی مشکل سے دستیاب ہوتے ہیں۔ عوام کوخوفزدہ کرنے کے لئے یرقان کانام بدل کرہیپاٹائٹس کانام رکھ دیاگیا ہے ۔یہ مرض پہلے بھی موجودتھی لیکن اس کے جراثیم دیکھے نہیں جاسکتے تھے اس لئے نفسیاتی طور پر لوگوں کوآرام اورسکون تھا ۔جب سے خوردبینی آلات ایجاد ہوئے ہیں توہیپاٹائٹس ،اے ،بی ،سی دریافت ہوا۔ہماری معلومات کے مطابق ڈی بھی دریافت ہوچکا ہے اس کے متعلق تحقیق وریسرچ جاری ہے ۔ہمارے خیال کے مطابق مسلمانوں کے عقائد اوران کی مالی حالت کوکمزورکرنے کایہ مغربی پروپیگنڈاہے ،جس کی وجہ سے ہم توہم پرستی کاشکارہوگئے ہیں اورعلاج اس قدر مہنگا ہے کہ ہم قرض پکڑکر اس کا علاج کراتے ہیں ،ان حالات کے پیش نظر ہماراسائل کومشورہ ہے:

1۔  اللہ تعالیٰ پر اعتقاداوریقین رکھتے ہوئے حسب پروگرام شادی کردی جائے ۔اس پروپیگنڈے سے خوفزدہ ہوکر اسے معرض التوامیں ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

2۔  اگروالدین اس قدر پریشان ہیں کہ انہوں نے طے شدہ پروگرام کوختم کرنے کاارادہ کرلیا ہے توہمارے نزدیک یہ گناہ ہے کیونکہ ایساکرناصلہ رحمی کے خلاف ہے اورمغربی اثرات سے متاثر ہونابھی مسلمانوں کی شان کے خلاف ہے۔

3۔  اگروالدین اس پروپیگنڈے سے متاثر ہیں توطے شدہ تاریخ پرنکاح کردیاجائے لیکن رخصتی کوملتوی کردیاجائے تاآنکہ بچے کاعلاج مکمل ہوجائے اوربچی کوبھی حفاظتی ٹیکے لگادیئے جائیں۔

4۔  موت کاایک وقت مقرر ہے، اس کاوقت آنے پر ہرانسان دنیاسے رخصت ہوجائے گا،جدیدطب کے مطابق متعدی امراض سے وہی متاثر ہوتا ہے جس کے اندربیماری قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اگربیماری مقدر میں ہے تووہ آکر رہے گی ۔اس لئے ہم کہتے ہیں کہ بچے کاعلاج کرایاجائے ،بچی کوحفاظتی ٹیکے لگادیئے جائیں اورصلہ رحمی کے پیش نظر سنت نکاح بر وقت اداکردی جائے۔اللہ تعالیٰ ہمارے عقائد کومحفوظ رکھے اوراچھے اخلاق کامظاہر ہ کرنے کی توفیق دے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:421

تبصرے