السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مستدرک حاکم میں حدیث ہے :عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُسَلِّمُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ مِنَ الْوِتْرِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ «وَلَهُ شَوَاهِدُ، فَمِنْهَا» جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک اور حدیث بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھنے کے بعد گفتگو کرتے اور پھر ایک رکعت پڑھتے۔ اب فصل اور عدم فصل دونوں کا ذکر صحیح احادیث سے آ گیا ۔ کیا یہ دونوں طریق درست ہیں ۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!جی یہ دونوں طریقے ہی نبی کریم سے ثابت ہیں ،آپ ان دونوں میں سے کسی بھی طریقے کے مطابق نماز وتر پڑھ سکتے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ایک رکعت وتر پڑھتے (آخری) دو رکعتوں اور ایک رکعت کے درمیان (سلام پھیر کر) بات چیت بھی کرتے۔ [ابن أبی شبیۃ ۲؍ ۲۹۱ وابن ماجۃ، حدیث نمبر: ۱۱۷۷] ابن عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم وتر کی دو اور ایک رکعت میں سلام سے فصل کرتے تھے۔ (ابن حبان : ۶۷۸) مزید تفصیل کے لئے فتوی نمبر (4800) پر کلک کریں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |