سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

بلا عذر روزہ چھوڑنے کا حکم

  • 12400
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2189

سوال

بلا عذر روزہ چھوڑنے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے سگریٹ نوشی کی عادت ہے جس کی وجہ سے میں نے بہت سارے روزے چھوڑ دئیے اور بہت سے روزے رکھنے کے بعد اسی عادت سے مجبور ہو کر توڑ دئیے ۔ میری عمر تیس سال ہے میں غیر شادی شدہ ہوں اور الحمدللہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔ صرف یہی ایک مجبوری ہے جس پر میں بہت کوشش کے باوجود کنٹرول نہیں پا سکا۔چھوڑے گئے اور توڑے گئے روزے تعداد میں بہت زیادہ ہیں جن کی قضا رکھنا میرے لئے بہت مشکل ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ توڑے گئےاور چھوڑے گئے روزوں کی قضا اور کفارہ کیا ہو گا ۔ کیا میں قضا کے طور پر ان کا فدیہ ادا کرسکتا ہوں۔کیونکہ قرآن پاک میں ہے :۔

اور ان لوگوں پر جو طاقت رکھتے ہوں روزے کی(پھر نہ رکھیں تو) فدیہ ہے کھانا کھلانا ایک مسکین کو۔ پھر جو شخص کرے گا اپنی خوشی سے کوئی نیکی تو یہ بہتر ہے اسی کے لیے۔ اور یہ کہ روزہ رکھو تم، بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم سمجھو۔ (سورہ البقرہ آیت ١٨٤)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ مسلمان ہو کر ایک بہت بڑی کوتاہی اور غلطی کا شکار ہیں ،اللہ آپ کو ہدایت دے،اور صحیح مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔روزہ رکھنا ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض اور واجب ہے اور بلا عذر شرعی روزہ نہ رکھنا یا اسے توڑ دینا کبیرہ گناہ اور حرام ہے۔سگریٹ نوشی کوئی عذر نہیں ہے،بلکہ سگریٹ پینا ہی حرام ہے۔آپ ایک تو سگریٹ پی کر اللہ کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں ،اور پھر روزہ چھوڑ کر دوبارہ نافرمانی کے مجرم بن رہے ہیں۔کیا آپ کو اللہ کے سامنے پیش نہیں ہونا ہے۔آپ اپنے سابقہ عمل پر اللہ تعالی سے توبہ کریں،اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کریں۔توبہ کے بعد آپ پر لازم ہے کہ چھوڑے ہوئے روزوں کی اندازے کے ساتھ قضا ء کریں۔

اورسورۃ البقرۃ کی - جو آیت مبارکہ آپ کے اوپر ذکر کی ہے،اس بارے میں سیدنا ابن عباس اور سیدنا مجاہد کی قراءت میں لا یطیقونہ کے الفاظ بھی موجود ہیں یعنی یہ حکم طاقت نہ رکھنے والوں کے لئے ہے۔جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا اور اب آیت مبارکہ شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن کے ساتھ منسوخ ہو چکا ہے۔شیخ ابن باز کا یہی موقف ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتوی کمیٹی

محدث فتوی


تبصرے