السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں ایک شخص کومتفقہ طورپر امیرمنتخب کیا گیا، پھراس کی امارت کے دوران ہی چندلوگوں نے ایک دوسرے شخص کو امیر بنا دیا ہے۔ اب ہم کس امیرکی اطاعت کریں، نیزہمارے ایک عالم دین نے ’’اِنَّہُ عَمَلٌ غَیْرُصَالِحٍ‘‘ کاترجمہ ’’وہ حرام کا بیٹا تھا‘‘ کیا ہے، کیایہ ترجمہ صحیح ہے؟۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت نے جن امرا کی سمع واطاعت کاحکم دیا ہے اوراس کے متعلق بہت تاکید فرمائی ہے، ان سے مراد با اختیار شرعی امرا ہیں۔ ہمارے ہاں امیرکاانتخاب کسی جماعت یاادارہ کانظام چلانے کے لئے ہوتا ہے۔ اس بنا پر ان کی حیثیت ایک دستوری امیرکی ہوتی ہے، اس لئے پیش آمدہ اشکال جماعتی دستورکی روشنی میں حل کیاجانامناسب ہے یاپھر اس سلسلہ میں مرکز سے رابطہ قائم کیاجائے ۔کیونکہ یہ ایک انتظامی معاملہ ہے، بظاہر توپہلے منتخب امیرکاحق ہے کہ اسے جماعتی نظام چلانے کاموقع دیا جائے، اگر کہیں سقم ہوتو باہمی مشاورت سے اس کاحل تلاش کیا جائے۔ ایک امیرکی موجودگی میں چند افراد کاکسی دوسرے شخص کومنتخب کر لینا صحیح نہیں ہے ،نیزعالم دین کا بیان کردہ ترجمہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کسی نبی کی بیوی کبھی بدکارنہیں رہی ہے۔ [ابن کثیر ،ص: ۳۹۲،ج۴]
نیزفرماتے ہیں کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کاہی بیٹا تھا، لیکن اخلاق وکردارمیں ان کے نقش قدم پرنہیں چلتا تھا۔[ابن کثیر ،ص: ۴۴۸،ج۲]
حضرات انبیا علیہم السلام پراس طرح کے الزامات لگانا یہودیانہ ذہنیت توہوسکتی ہے، لیکن ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ انبیائے کرامf کے بارے میں ایسی باتیں ذہن میں لائے جوعقل ونقل کے خلاف ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب