سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(397) عورتوں کا بال کٹوانا

  • 12389
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2983

سوال

(397) عورتوں کا بال کٹوانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیارسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اپنے بال کٹواتی تھیں اورکانوں تک رکھتی تھیں ؟

٭  کیاعورت اپنے بال کٹواسکتی ہے یانہیں ؟

٭  کیاعورت اپنی دوگتیں کراسکتی ہے ؟وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بالوں کے متعلق احادیث میں ہے کہ ان کااکرام کیا جائے، ان کے اکرام کے لئے انہیں دھونا، صاف کرنا، تیل  لگانااورکنگھی کرناہے ،اس میں مرداورعورت کی کوئی تمیز نہیں ،البتہ مردوں کے لئے بال رکھنے کی حدبندی ہے جبکہ عورت کے لئے اس  قسم کی کوئی حدبندی نہیں ۔چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق صحیح روایات ہیں کہ آپ کے بال نصف کانوں تک اور ایک روایت کے مطابق کہ کندھوں کے درمیان ہوتے تھے ۔ [صحیح بخاری ،اللباس :۵۹۰۱]

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورت کاحسن وجمال اس کے خوبصورت لمبے اورگھنے بالوں میں ہے۔قرون اولیٰ کی خواتین اپنے بالوں کے متعلق خاص اہتمام کرتی تھیں لیکن آج کی مغرب زدہ عورت جسے گھر سے باہر کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کاشوق ہے اوراسے گھریلوکام کاج کے لئے فرصت نہیں ہے چونکہ عورت کے بال محنت طلب کرتے ہیں جبکہ آج کی صنف نازک اس محنت سے قاصرہے ۔اس نے گندے بالوں کواٹھائے رکھنے کے بجائے انہیں اتار پھینکنے میں ہی عافیت سمجھی ہے، پھر بالوں کوفیشن کے طورپر کاٹناخالص مغربی تہذیب ہے ۔مشرقی خواتین میں یہ تہذیب مغرب کی طرف سے آئی ہے۔اس لئے اس پرفتن دورمیں عورت کواپنے بال کاٹنے کی اجازت دینامغربی تہذیب کی آبیاری کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں ازواج مطہرات کاجوعمل پیش کیاجاتا ہے وہ کئی ایک اعتبار سے محل نظر ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ازواج مطہرات اپنے بالوں سے لے لیتی تھیں حتی کہ وہ وفرہ کی مانندہوتے تھے۔    [صحیح مسلم ،الحیض :۷۲۸]

ہمارے نزدیک اس کامعنی یہ ہے کہ وہ اپنے بالوں کاخاص انداز سے جوڑابنالیتی تھیں۔جووفرہ کی شکل میں نظرآتاتھا ،امام مسلم رحمہ اللہ  نے اس عمل کوطہارت کے مسائل میں بیان کیا ہے یہ بھی اس بات کاقرینہ ہے کہ اس سے مراد بالوں کاکاٹنانہیں ہے بلکہ غسل کے موقع پر ان کاجوڑابنانا ہے ۔عموماًخواتین غسل کے وقت یہ عمل کرتی ہیں،اگر اس سے مرادکاٹناہوتوبھی محدثین نے لکھا ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات نے سادگی اورترک زینت کے طورپر ایسا کیا تھا ۔

اس کے علاوہ اسلامی خواتین کوکفرپیشہ عورتوں سے مشابہت نہیں کرنا چاہیے اورمردوں سے مشابہت کرنے والیوں پر تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔     [صحیح بخاری ،اللباس :۵۸۸۵]

ہمارے نزدیک کسی معقول عذرکے بغیرعورت کوسرکے بال کاٹنے کی اجازت نہیں ہے ۔خاوند کی خوشنودی کوئی معقول عذرنہیں ہے کیونکہ اس کی خوشنودی شریعت کے تابع ہے، اس لئے فیشن کے طورپر عورت کابال کاٹناجائز نہیں ہے، البتہ دومیڈھیاں یاگیسوبنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی فوت ہوئی تھیں تواس کے بالوں کی تین میڈھیاں بنائی گئی تھیں۔     [صحیح بخاری ،الجنائز:۱۲۳۶]

اس لئے عورت کواپنے بالوں کی دوتین میڈھیاں (گتیں) بنانے میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ فیشن کے طورپر انہیں کاٹناشرعاًجائز معلوم نہیں ہوتا ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:400

تبصرے