السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہماری مسجد میں شہری بچے ناظرہ قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں کیاہم اپنی مسجد کے امام کوقربانی کی کھالوں سے تنخواہ دے سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
چرمہائے قربانی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوحکم دیا تھاکہ قربانی کاگوشت اوراس کاچمڑا سب مساکین میں تقسیم کردواورقصاب کوبطورمزدوری ان میں سے کچھ نہ دو۔ [صحیح مسلم ،الحج :۱۳۱۷]
اس فرمان نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی کھالوں کے حقدارصرف غرباء اور مساکین ہیں اوریہ حق انہی ناداراورغریبوں کوملناچاہیے ۔امام مسجد قطعاًان کھالوں کاحقدارنہیں ہے۔ ہاں، اگرمقامی جماعت انتہائی کمزورہے یاخودامام غریب اورنادارہے تواس صورت میں قربانی کی کھالیں امام مسجد کوبقدرضرورت دی جاسکتی ہیں یاایسی مفلوک الحال جماعت انہیں فروخت کرکے اس مدرسے کے امام مسجد کی تنخواہ پوری کر سکتی ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ اہل مسجد جس طرح اپنی دیگر ضروریات زندگی کوپوراکرتے ہیں۔ امام مسجد کی تنخواہ کوبھی اپنی ان ضروریات کی فہرست میں شامل کریں۔ مسجد کا امام مسجد کی ایک ضرورت ہے اوراس ضرورت کو پورا کرنا اہل مسجد کی ذمہ داری ہے۔ قربانی کی کھالوں سے اس کی تنخواہ اداکرنے سے گھر کی چیز گھرہی رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی بچوں کی تعلیم پر بھی قربانی کی کھالوں کوخرچ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں جوسیاسی جماعتیں ہیں وہ بھی ان کی حقدار نہیں ہیں۔ جہادی تحریکوں سے بھی ہوشیاررہنا چاہیے۔ قربانی کی کھالیں صرف غرباء ومساکین اوربیواؤں کاحق ہے۔ مقامی طلباء اورمساجد سیاسی جماعتیں ،جہادی تنظیمیں ان کی حقدارنہیں ہیں۔ صورت مسئولہ میں امام مسجد پرصرف اس صورت میں قربانی کی کھالیں خرچ کی جا سکتی ہیں کہ مقامی جماعت انتہائی کمزور اورامام مسجد کی تنخواہ اتنی کم ہو کہ امام مسجد اس سے گزر اوقات نہیں کرسکتا اور اس کااورکوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے تواسے دیگر غرباء ومساکین کی طرح بقدرحصہ دی جاسکتی ہیں،ایسانہیں ہوناچاہیے کہ وہ مقامی غرباء ومساکین کونظراندازکرکے خود تمام کھالوں پرقبضہ کرے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب