السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری ہمشیرہ کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہمارے ہاں ہوئی ہم نے بچے کاعقیقہ کیا۔کیاہم بچے کی پیدائش اور عقیقہ پراٹھنے والے اخراجات کامطالبہ اپنے بہنوئی سے کرسکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح رہے کہ نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات خاوند کے ذمہ ہیں، خواہ ان کاتعلق خوردونوش سے ہو یا علاج معالجہ یالباس اوررہائش وغیرہ سے ان تمام اخراجات کاپوراکرناخاوندکی ذمہ داری ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرناچاہیے اورجس پر اس کارزق تنگ کیاگیاہو وہ بھی اللہ کے دیئے ہوئے سے خرچ کرے۔‘‘[۶۵/ الطلاق،۷]
رہائش کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’انہیں وہیں رکھو جہاں تم خودرہتے ہو۔‘‘ [۶۵/الطلاق:۶]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم پرمعروف طریقہ کے مطابق ان عورتوں کو کھلانا پلانا اور انہیں لباس مہیاکرنالازم ہے ۔‘‘ [صحیح مسلم، الحج :۱۲۱۸]
حضرت عمر وبن احوص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’خبردارعورتوں کاتم پرحق یہ ہے کہ تم انہیں لباس مہیا کرنے اور انہیں کھانافراہم کرنے میں احساس کرو۔‘‘ [مسند امام احمد، ص: ۴۲۶،ج۴]
ان آیات واحادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کاہرخرچہ خاوندکے ذمہ ہے لیکن ہماری مشرقی روایات کچھ اس طرح تشکیل پاتی ہیں کہ شادی کے بعد بھی شادی شدہ بیٹی کے اخراجات والدین کے ذمے پڑے رہتے ہیں۔ اگروالدین ان کامطالبہ کریں توغیر مروت اورغیرمہذب ہونے کے طعنے سننے پڑتے ہیں، اس لئے والدین بے چارے رواداری میں انہیں برداشت کرتے رہتے ہیں۔ سوال میں ذکر کردہ اخراجات بھی اسی قبیل سے ہیں۔ بچی کی شادی کے بعد اس کے ہاں پہلے بچے کی ولادت عام طورپر والدین کے ہاں ہوتی ہے، شرم وحیا اور نسوانیت کاکچھ تقاضابھی ہوتا ہے لیکن لڑکے کے والدین بچی کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ولادت پرجتنے بھی اخراجات آتے ہیں وہ بچی کے والدین ہی برداشت کرتے ہیں، خواہ بچے کی پیدائش گھرمیں ہویا ہسپتال میں، کسی پرائیویٹ کلینک میں ڈاکٹر حضرات بھی ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں ،دس پندرہ ہزار روپے تومعمولی بات ہے۔ پھرولادت کے بعداگر مذہبی ماحول ہے توعقیقہ کے اخراجات بھی بچی کے والدین ہی برداشت کرتے ہیں۔ شرم کے مارے کچھ کہابھی نہیں جاتا، حالانکہ ولادت وعقیقہ کے تمام اخراجات کوپوراکرناشرعاًواخلاقاًخاوند کی ذمہ داری ہے، پھرجب ولادت کے بعد بچی کوواپس خاوند کے گھررخصت کرنا ہوتا ہے تواس وقت بھی افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہے، حالانکہ باپ تمام اولاد کے درمیان مساوات قائم رکھنے کاپابند ہے۔ عیدالفطر، بقرہ عید کے موقع پر ’’عیدی ‘‘کے نام سے بھی یہی کچھ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک اوربہت گندی رسم رائج ہے کہ جب فوت ہوجاتی ہے تواس کے کفن ودفن کے اخراجات بھی بچی کے والدین پوراکرتے ہیں، حالانکہ اس بے بچاری نے ساری عمر خاوند کی خدمت گار ی میں گزاری ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں کفن کا بندوبست بچی کے والدین کے ذمہ ہوتاہے ۔پھرکفن کے نام پرایسے سرخ رنگ کی چادر یادوپٹہ دیاجاتا ہے گویا آج اسے گھر سے دلہن بنا کر رخصت کرناہے ۔اس قسم کی افراط و تفریط ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے بہرحال شادی کے بعد بیوی کے تمام اخراجات خاوند کے ذمہ ہیں ،اس لئے ولادت وعقیقہ اورکفن ودفن کے اخراجات خاوند کوپوراکرنے چاہییں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب