سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(372) عقیقہ کتنے دن تک کرنا چاہیے؟

  • 12363
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-28
  • مشاہدات : 5046

سوال

(372) عقیقہ کتنے دن تک کرنا چاہیے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیابچے کاعقیقہ ساتویں روز ہی کرناضروری ہے یادوچارسال بعد بھی کیاجاسکتا ہے ،کیاعقیقہ کے لئے جانور کا دو دانتہ ہونا ضروری ہے، نیز عقیقہ کے لئے گائے میں سات حصے ہوسکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بچے کاعقیقہ ایسی قربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ کاتقرب حاصل کرنے کے لئے اورنعمت اولادپراس کاشکریہ اداکرنے کے لئے پیدائش کے ساتویں روز ذبح کیاجاتا ہے۔ ساتویں دن عقیقہ کے متعلق ارشاد نبوی ہے: ’’ہربچہ اپنے عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے، چنانچہ پیدائش کے ساتویں روزاس کاعقیقہ کیاجائے اورنام رکھاجائے اوراس کے سرکے بال منڈائے جائیں ‘‘ ۔ [ابوداؤد، الاضاحی: ۲۸۳۸]

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے ،کہ عقیقہ پیدائش کے ساتویں روز کرنا چاہیے اگرانسان اپنے بچے کی پیدائش کے وقت تنگ دست ہے تو اس پرعقیقہ لازم نہیں ہے ،کیونکہ وہ عاجز ہے اورعاجزہونے کی وجہ سے عبادات ساقط ہوجاتی ہیں، چونکہ بچہ عقیقہ کے عوض گروی ہوتا ہے، اس لئے جب بھی توفیق ملے وہ اپنے بچے کاعقیقہ کر سکتا ہے۔ ایک روایت میں بیان ہے کہ ساتویں روز کے بعد چودھویں یا اکیسویں روزعقیقہ کر دیا جائے، جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’عقیقہ کا جانور ساتویں روز ذبح کیا جائے یا چودھویں یا اکیسویں روز اسے قربان کیا جائے۔‘‘    [بیہقی، ص: ۳۰۳، ج۹]

استطاعت کے باوجود بلاوجہ تاخیر کرناخلاف سنت ہے اگر کسی کے والدین عقیقہ کے مسائل سے لاعلمی وجہالت یاغربت وافلاس کی وجہ سے زندگی میں اس کاعقیقہ نہ کرسکے ہوں وہ خودبھی اپناعقیقہ کرسکتا ہے کیونکہ وہ عقیقہ کے عوض گروی ہے، اس لئے خودکوگروی سے چھڑاناضروری ہے ۔عقیقہ کے لئے احادیث میں جوالفاظ وارد ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کی شرائط نہیں، نیزکسی بھی صحیح حدیث سے عقیقہ کے جانور پر قربانی کی شرائط عائد کرنا ثابت نہیں ہوتا اورجولوگ یہ شرائط عائد کرتے ہیں ان کے پاس قیاس کے علاوہ اورکوئی دلیل نہیں ہے، تاہم عقیقہ کے جانور میں متقارب اورمساوی کی قید اس بات کی متقاضی ہے کہ شریعت نے قربانی کے جانور میں جن عیوب ونقائص سے بچنے کاحکم دیا ہے انہیں عقیقہ کے جانور میں بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ  لکھتے ہیں کہ عقیقہ کے جانور میں بھی ان عیوب سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے قربانی کے جانور میں احتراز کیاجاتا ہے۔   [مغنی لابن قدامہ، ص:۳۹۹، ج۱۳]

 بہرحال یہ بات اپنی جگہ پر مبنی بر حقیقت ہے کہ عقیقہ کے جانورکادودانتہ ہوناضروری نہیں ہے لیکن موٹاتازہ ہونا چاہیے، جسے بکرا یا مینڈھا کہا جا سکے۔

احادیث میں عقیقہ کے لئے جن جانوروں کی قربانی کاثبوت ملتا ہے وہ بکری یادنبہ ہے۔ حضرت ام کرز  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’لڑکے کی طرف سے دومساوی بکریاں اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جاتی ہے۔‘‘     [مسند امام احمد، ص:۳۸۱، ج۶]

اس طرح دیگر روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے لئے بکری یادنبے کاذکر ہی ملتا ہے، اس لئے عقیقہ میں صرف انہی جانوروں کوذبح کیا جائے، نیزان کے نزدیک نر یامادہ سے ثواب میں کمی نہیں ہو گی، جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔[ابوداؤد ،الاضاحی: ۲۸۳۵]

اگرگائے کوعقیقہ میں ذبح کرناہے تولڑکے کے لئے اس کے ساتھ ایک اور جانور ملاناہوگا لیکن سات حصے عقیقہ کے طورپر رکھنا، کسی طرح بھی جائز نہیں ہے ۔بلکہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا نے عقیقہ میں اونٹ ذبح کرنے پرمعاذاللہ پڑھ کراپنی خفگی کااظہارکیاتھا۔[بیہقی ص: ۳۰۱، ج۹]

  اس بنا پر سنت پرعمل کرتے ہوئے صرف بکری یادنبے اورمینڈھے وغیرہ پر ہی اکتفا کیا جائے ۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:383

تبصرے