سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(366) چرمہائے قربانی کا صحیح مصرف

  • 12357
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1061

سوال

(366) چرمہائے قربانی کا صحیح مصرف

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

  چرمہائے قربانی کاصحیح مصرف کیاہے۔ ہمارے ہاں بعض تنظیموں کی طرف سے عید الاضحی سے پہلے وعدہ کی رسیدیں تقسیم کی جاتی ہیں ،کیااس طرح کی وعدہ رسیدیں ملنے سے ہم پابند ہوجاتے ہیں کہ انہیں کوقربانی کی کھال دی جائے یااپنی صوابدید کے مطابق انہیں تقسیم کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

چرمہائے قربانی کاصحیح مصرف گردوپیش کے غرباء ومساکین ہیں چونکہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر سو اونٹ ذبح کئے اوران کی کھالوں کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ  کوحکم دیا کہ انہیں صدقہ کے طورپر تقسیم کر دیا جائے۔   [صحیح بخاری ، الحج : ۱۷۱۸]

اس کی تفصیل بایں الفاظ وارد ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ کوحکم دیا کہ وہ قربانی کے اونٹوں کی دیکھ بھال کریں، نیز ان کاگوشت، کھا لیں اور جلیں مساکین میں تقسیم کردیں اورقصاب کوبطوراجرت ان کھالوں سے کچھ نہ دیں۔ [صحیح مسلم ،الحج:۱۳۱۷]

اس فرمان نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی کھالوں کے حق دار غرباء اور مساکین ہیں اوریہ حق انہی نادار اورغریبوں کوملناچاہیے ۔ہمارے ہاں عام طورپر مندرجہ ذیل مصارف پر ان کھالوں کوخرچ کیا جاتا ہے جواسوئہ حسنہ کے بالکل منافی ہے ۔

1۔  ائمۂ مساجد اوران کے خطبا کی تنخواہ پرانہیں صرف کرلیاجاتا ہے۔

2۔  مقامی بچوں کی تعلیم پراٹھنے والے اخراجات ان سے پورے کئے جاتے ہیں ۔

3۔  مقامی لائبریریوں کی توسیع اورمساجدکی تعمیروترقی پرانہیں خرچ کیاجاتا ہے ۔

4۔  سیاسی جماعتیں بھی سیاست چمکانے کے لئے ان کھالوں کواستعمال کرتی ہیں ۔

5۔  جہادی تحریکیں بھی قربانی کے ایام میں سرگرم عمل ہوتی ہیں وہ بھی کھالوں کواکٹھاکرنے میں تگ و دوکرتی ہیں ۔

بعض جہادی تنظیموں کاطریقہ واردات سوال میں ذکر ہوا ہے کہ ان کے افرادقربانی سے پہلے لوگوں سے انفرادی ملاقات کرکے وعدہ کی رسیدیں ان کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں تاکہ اسے پابندکردیاجائے ۔مذکورہ تمام مصارف کے سلسلہ میں ہمیں ہوشیار رہناچاہیے اورقربانی کی کھالیں صرف غرباء اورمساکین اوربیواؤں کاحق ہے ،مقامی طلبا، مساجد، ائمۂ کرام، خطبائے عظام، مقامی لائبریریاں ،سیاسی جماعتیں اورجہادی تنظیمیں ان کی حق دارنہیں، ہاں، اگرمقامی جماعت انتہائی کمزورہواور امام مسجد کی تنخواہ اتنی کم ہوکہ اس سے گزراوقات نہ ہوسکے اوراس کااورکوئی ذریعہ معاش بھی نہیں ہے تواسے دیگر غرباء ومساکین کی طرح بقدر حصہ کھالیں دی جاسکتی ہیں، اسی طرح اگرمجاہدین مفلوک الحال ہوں توان کی غربت وناداری کے پیش نظر بقدرحصہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایسانہیں ہوناچاہیے کہ مقامی غرباء و مساکین کونظرانداز کرکے تمام کھالوں پر یہی حضرات قبضہ کرلیں ،واضح رہے کہ اگرکسی نے اپنی سادگی کی وجہ سے وعدہ رسید وصول کرلی ہے تووہ اس کا پابند نہیں ہوجاتا بلکہ اسے چاہیے کہ اپنی صوابدیدکے مطابق قربانی کی کھال کو صحیح جگہ پرصرف کرے ۔قربانی کی کھال سے قربانی کرنے والا خودبھی فائدہ اٹھاسکتا ہے اگروہ اس کا مصلیٰ یامشکیزہ بناکر اپنے استعمال میں لانا چاہے تولاسکتا ہے، اسے فروخت کرکے اس کی قیمت کواپنے ذاتی استعمال میں لانادرست نہیں ہے اورنہ ہی اس کھال کواجرت کے عوض قصاب کو دینا چاہیے، بلکہ اسے مزدوری اپنی گرہ سے دی جائے، جیسا کہ حدیث بالا سے واضح ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:379

تبصرے