سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(335) ناجائز تعلقات کی بنا پر نکاح کرنا

  • 12326
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1433

سوال

(335) ناجائز تعلقات کی بنا پر نکاح کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک لڑکے نے کسی لڑکی سے ناجائز تعلقات استوار کئے جس کے نتیجہ میں ناجائز حمل قرارپاگیا ،ان کے والدین کواس حرکت کاعلم تھا۔اب حمل ضائع کرکے لڑکے اورلڑکی کے اصرار پران کانکاح کر دیا گیا ہے تاکہ عدالت کی گرفت میں نہ آسکیں۔ واضح رہے کہ نکاح دونوں والدین کی اجازت اوررضامندی سے ہوا ہے کیا ایسا نکاح کرنا شرعاًجائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید میں جہاں والدین کے حقوق بیان کئے گئے ہیں وہاں ان کے فرائض وواجبات کی نشاند ہی بھی کی گئی ہے انہیں اس بات کاپابند کیاگیا ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کابندوبست کریں ۔اپناگھریلو ماحول صاف ستھراا ورپاکیزہ رکھیں، معاشرتی برائیوں کے سلسلہ میں اپنی اولاد کی کڑی نگرانی کریں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ’’دیوث ‘‘پرلعنت فرمائی ہے اوراس پر جنت کے حرام ہونے کی وعید سنائی ہے جواپنے گھر میں برائی دیکھ کر اسے ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلیتا ہے۔لڑکیوں کے متعلق تو خاص ہدایت ہے کہ ’’جونہی مناسب رشتہ ملے ان کانکاح کرنے میں دیر نہ کی جائے۔‘‘ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی  رضی اللہ عنہ کویہ وصیت کی تھی کہ ’’تین کاموں میں دیرنہ کرنا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب لڑکی کے لئے مناسب رشتہ مل جائے تواس کانکاح کرنے میں لیت ولعل سے کام نہیں لینا چاہیے۔‘‘ حدیث میں یہ بھی ہے کہ ’’اخلاقی اور دینی طورپر مناسب رشتہ ملنے کے باوجود اگرکوئی ’’بلند معیار‘‘ کی تلاش میں دیرکرتا ہے تووہاں ضرورفتنہ فسادرونما ہوگا ۔‘‘صورت مسئولہ میں ہم اس حقیقت کانمایاں طورپر مشاہدہ کرتے ہیں کہ والدین کواولاد کی اس حرکت شنیعہ کاعلم ہے ۔اس کے باوجود خاموش تماشائی کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ آخر اس بدکاری پر نوبت یکبار نہیں پہنچ جاتی ،بلکہ اس سے پہلے کچھ مقدمات اورابتدائی محرمات ہوتے ہیں جوبدکاری کے راستہ کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس مقام پرہماراسوال یہ ہے کہ بدکاری کے مقدمات ،محرکات اور اسباب کے سدباب کے لئے والدین نے کیا کردار سرانجام دیا ہے۔ قرآن پاک نے نہ صرف زنا سے روکا ہے بلکہ اس کے ابتدائی محرکات کابھی راستہ بند کیا ہے اوران تمام شرمناک افعال سے منع کیا ہے جوبدکاری کاسبب بن سکتے ہیں ۔ان ابتدائی گزارشات کے بعد ہم صورت مسئولہ کاجائزہ لیتے ہیں کہ صفائی کے بعد والدین کی رضامندی سے جونکاح ہوا ہے وہ شرعاًدرست اورجائز ہے۔ اب انہیں چاہیے کہ اللہ کے حضور نہایت عاجزی اورندامت کے جذبات سے توبہ کریں اورآیندہ اس قسم کی نازیبا حرکات سے اجتناب کرنے کاعزم کریں وگرنہ قرآن مجید کی روسے یہ بھی صحیح ہے کہ ’’بدکار مرد،ناہنجار عورت سے ہی نکاح کرتا ہے ۔‘‘    [۲۴/النور:۳]

پھراس سلسلہ میں جن مشکلات ومصائب کاسامنا کرناپڑے گاوہ بہت سنگین ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ توبہ کرکے اپنی آیندہ زندگی کوپاکیزہ کریں اور خوش اسلوبی سے بقیہ ایام گزارنے کاعزم رکھیں۔ توبہ کرنے سے سابقہ گناہ نہ صرف معاف ہوجاتے ہیں بلکہ اگراخلاص ہوتو پہلے گناہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی وضاحت موجودہے ۔    [۲۵/الفرقان :۷۰]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:351

تبصرے