سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(324) خالہ اور بھانجی ایک عقد میں رکھنا شرعاً کیسا ہے؟

  • 12315
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3373

سوال

(324) خالہ اور بھانجی ایک عقد میں رکھنا شرعاً کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کیا،اس سے اولاد بھی پیدا ہوئی پھراس نے اپنی بیوی کوطلاق دیئے بغیر اس کی حقیقی بھانجی سے نکاح رچالیا اور اس سے بھی اولاد پیداہوئی ،اب خالہ اوربھانجی ایک ساتھ اس کے عقد میں ہیں ۔کتاب وسنت کی روشنی میں فتویٰ دیں کہ ایسا کرناجائز ہے یانہیں، اگرجائز نہیں توان میں سے کون سا نکاح باطل ہوگا، نیز ناجائز نکاح سے پیداہونے والی اولاد کے متعلق کیاحکم ہے کیاوہ اپنے باپ کی حقدار ہوگی کیاحقیقی اولادان کے خلاف قانون وراثت کے تحت تمام جائیداد کے وارث ہونے کادعویٰ کرسکتی ہے۔نا جائز نکاح کرنے پر اس جوڑے پرکوئی حدنافذہوگی اس قسم کانکاح پڑھنے والے اور اس پرگواہ بننے والے کے متعلق کیاحکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہوکہ وہ نکاح جوشرع کے عین مطابق ہواور جملہ ارکان وشرائط کی پابندی کے ساتھ بلاکسی شرعی مانع کے منعقد ہواہونکاح صحیح کہلائے گا۔ شریعت میں چارقسم کے ایسے موانع ہیں جن کی موجودگی میں نکاح کالعدم ہوتا ہے۔

1۔  نسبی: اس سے مراد وہ موانع ہیں جوخون کے رشتہ سے پیداہوئے ہوں، مثلاً: ماں، بیٹی ،بہن اور خالہ وغیرہ۔

2۔  رضاعی :اس سے مراد وہ موانع ہیں جوکسی اجنبی عورت کادودھ پینے کی بنا پر پیداہوئے ہوں، مثلاً :رضاعی بہن وغیرہ۔

3۔  ازواجی :اس سے مراد وہ موانع ہیں جوکسی سے نکاح کی بنا پر پیداہوئے، مثلاً: بیوی کی ماں وغیرہ۔

4۔  سببی :اس سے مراد وہ موانع ہیں جومختلف اسباب کی بنا پر پیداہوئے ہوں، مثلاً: دوران عدت نکاح کرنا۔

اس مؤخرالذکر موانع کی معتدد صورتیں ہیں ۔ان میں سبب امتناع کے دورہونے تک نکاح کرناجائز نہیں ہے، مثلاً: کسی دوسرے کی منکوحہ سے نکاح کرناحرام ہے۔ جب سبب امتناع ختم ہوجائے تونکاح کیا جا سکتا ہے، یعنی جب عورت کاخاوند فوت ہوجائے یاوہ اسے طلاق دیدے توعدت گزرنے کے بعد اس سے نکاح کیا جاسکتا ہے کیونکہ سبب امتناع ختم ہوچکا ہے اس تفصیل کے بعد جب ہم صورت مسئولہ کاجائزہ لیتے ہیں تواس نکاح ثانی میں سبب امتناع موجود ہے وہ یہ کہ خالہ کی موجودگی میں بھانجی سے نکاح نہیں ہوسکتا، چنانچہ حدیث میں ہے:

سیدناجابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کی موجودگی میں اس کی پھوپھی یااس کی خالہ سے نکاح کرناممنوع قراردیا ہے۔     [صحیح بخاری ،النکاح:۵۱۰۸]

نیز حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’بھانجی اور خالہ، نیزبھتیجی اورپھوپھی کوبیک وقت نکاح میں جمع نہیں کیاجاسکتا ۔‘‘     [صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۰۹]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کایہ حکم امتناعی تقریباًپندرہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم سے مروی ہے اور خوارج کے ایک گروہ کے علاوہ اس قسم کے نکاح کے حرام ہونے پر امت کااتفاق ہے۔     [فتح الباری، ص: ۲۰۲،ج ۹]

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے بیان ہے کہ اگر تم نے ایسا نکاح کیاتوقطع رحمی کے مرتکب ہوں گے۔ [صحیح ابن حبان، ص: ۱۶۶، ج ۶حدیث: ۴۱۰۴]

فقہائے امت نے اس قسم کے نکاح کے متعلق تین صورتیں بیان کی ہیں۔

1۔  اگرخالہ اوربھانجی سے بیک وقت نکاح کیاگیاہے تودونوں نکاح باطل ہیں کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو درست قراردینے کی کوئی وجہ ترجیح موجود نہیں، جیسا کہ کسی عورت کابیک وقت دوآدمیوں سے نکاح کردیاجائے، اس صورت میں کسی سے بھی نکاح درست نہیں ہوگا ۔

2۔  اگرایک سے پہلے اوردوسری سے بعدمیں نکاح ہوا ہے توپہلانکاح صحیح ہوگاکیونکہ اس کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے اوردوسرانکاح باطل ہوگاکیونکہ اس کے جواز کی کوئی دلیل نہیں بلکہ ناجائز ہونے کی دلیل موجود ہے کہ پہلے نکاح کی موجودگی میں دوسرانکاح شرعاًجائز ہی نہیں اوردوسرانکاح صرف اس صورت میں صحیح ہوسکتا تھا کہ پہلے نکاح کوختم کیاجاتا اورپہلی بیوی اپنی عدت گزارلیتی جبکہ ایسانہیں ہواتودوسرانکاح سرے سے باطل ہوگا ۔

3۔  دونوں نکاح یکے بعددیگرے ہوئے ہوں لیکن اب معلوم نہیں پہلے کس سے ہوا اوربعد میں کس کواپنے عقد میں لایاگیا ، اس صورت میں بھی دونوں کواپنے سے الگ کرناہوگا۔اگر وہ چاہتا ہے کہ ایک کواپنے سے الگ کرکے دوسری سے تجدیدنکاح کرے تویہ اس کی صوابدید پرموقوف ہے اس کی تین صورتیں ممکن ہیں۔

 (۱لف)  نکاح کے بعد ان میں سے کسی کے ساتھ ابھی مباشرت کی نوبت نہیں آئی تواس صورت میں ایک الگ کرکے اسی وقت دوسری سے نکاح کرسکتا ہے۔

 (ب)  اگران میں سے ایک کے ساتھ دخول کرچکاہے اوراسے ہی اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے توجسے ابھی تک چھوانہیں اسے ایک طلاق دے کرفارغ کردے اوردوسری سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے ۔

(ج)  اگردونوں سے خلوت کرچکا ہے تودونوں کواپنے سے الگ کردے ۔جب ان کی عدت گزرجائے توجس سے چاہے نکاح کرے اگر کسی سے نکاح نہیں کرناچاہتا توبعد از عدت دونوں آزادہیں۔ وہ جس سے چاہیں نکاح کرلیں واضح رہے کہ اگر ان دونوں سے اولادبھی ہوچکی ہے تواولاد کی نسبت اسی کی طرف ہوگی کیونکہ نکاح صحیح ہے یا فاسد، دونوں صورتوں میں نسب کاالحاق اسی سے ہوگا۔     [مغنی ابن قدامہ، ص: ۵۳۴،ج ۹]

اس تفصیل کے بعدہم جب صورت مسئولہ کاجائزہ لیتے ہیں تواس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص نے پہلے خالہ سے نکاح کیااوراس سے اولاد بھی پیداہوئی اوریہ نکاح صحیح ہے اوراولاد بھی اسی کی ہے اس کے بعددوسرانکاح پہلی بیوی کی بھانجی سے کیاگیا جو شرعاًناجائز ہے، جیسا کہ احادیث بالا سے واضح ہے چونکہ دوسری بیوی سے اولادہوچکی ہے۔ اس اولاد کی شرعی حیثیت کیا ہے اب دیکھنا ہوگاکہ دوسر ی سے نکاح کرتے وقت اس کی ذہنی کیفیت کیاتھی ؟اگر اس کی حرمت کوجانتے ہوئے دیدہ ودانستہ دوسرانکاح کیا ہے تواس صورت میں اولاد کی نسبت صرف ماں کی طرف ہوگی۔ باپ کی طرف سے انہیں منسوب نہیں کیاجائے گا اوریہ دونوں بدکاری کے مرتکب ہوئے ہیں ۔مرد چونکہ شادی شدہ ہے اسے رجم کی سزادی جائے اورجس سے نکاح کیاگیا ہے اسے سوکوڑے لگائے جائیں کیونکہ وہ پہلے سے شوہر دیدہ نہیں ہے۔ زناکی سزا دینا حکومت کاکام ہے ہم قانون کوہاتھ میں لے کر انہیں سزادینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔یہ ضروری ہے کہ وہ ازخود یابذریعہ قانون ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں ،ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگوں سے مکمل بائیکاٹ کریں اورکسی قسم کے تعلق سے کلی طورپر اجتناب کریں ۔اگراس نے دوسرانکاح جہالت اورلاعلمی کی وجہ سے کیاہے توبھی فوراًان کے درمیان علیحدگی کرادی جائے ۔البتہ اس صورت میں اولاد کی نسبت نکاح کرنے والے کی طرف ہوگی کیونکہ نکاح  فاسد اوروطی بالشبہ کوبھی ثبوت نسب کے لئے حجت قراردیاگیا ہے۔ شرع اسلام میں بچے کوصحیح النسب قراردینے کی انتہائی کوشش کی گئی ہے تاکہ معاشرہ میں انتشار اوربد اخلاقی نہ پھیلے۔ صورت مسئولہ میں اٹھائے گئے سوالات کاترتیب وارجواب حسب ذیل ہے۔

1۔  اس آدمی نے جودوسراعقد کیاہے وہ کسی صورت میں جائز نہیں ۔واضح رہے کہ اس نکاح کی حرمت ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔

2۔  دوسرانکاح باطل ہے کیونکہ خالہ اوربھانجی کوجمع کرنے کاسبب عقدثانی ہے، پہلانکاح صحیح ہے کیونکہ اس میں صحت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں اوراسے حرام قراردینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

3۔  دوسری سے نکاح کے نتیجہ میں جواولادپیداہوئی ہے اس کی دوصورتیں ہیں اگرلاعلمی میں ایسا ہوا ہے توپیداہونے والی اولاد صحیح النسب ہوگی اگراس کی حرمت کاعلم تھااس کے باوجود نکاح کیا ہے توبدکاری کے نتیجہ میں پیداہونے والی اولادصرف ماں کی طرف سے منسوب ہوگی۔ آدمی سے اس کاکوئی رشتہ نہیں ہے دونوں صورتوں میں ان کے درمیان علیحدگی کراناضروری ہے۔

4۔  دوسری سے پیداہونے والی اولاد وراثت کی حق دارنہیں ہوگی اورنہ ہی منکوحہ اورناکح کے درمیان وراثت کاسلسلہ چلے گا بلکہ پیداہونے والی اولادکوصرف ماں کی طرف سے وراثت ملے گی ،بشرطیکہ نکاح کے وقت انہیں اس کی حرمت کاعلم تھا۔

5۔  حقیقی اولاد:اس ناجائز اولاد کے خلاف قانون وراثت کے تحت تمام جائیداد کے وارث ہونے کادعویٰ کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ ہمارے ملک کے عائلی قوانین میں انہیں ناجائز قراردینے کاکوئی قانون نہیں ہے ۔

6۔  ناجائز نکاح کرنے پراس جوڑے پرحدلگائی جاسکتی ہے جس کی تفصیل گزشتہ سطورمیں بیان کر دی گئی ہے لیکن حد لگانااسلامی حکومت کا کام ہے، ہم اس کے ذمہ دارنہیں ہیں۔

7۔  ہم لوگ عام طورپرنکاح پڑھنے والے اوراس پرگواہی دینے والوں کوقابل گردن زدنی قرار دیتے ہیں حالانکہ ان ’’بے چاروں‘‘ کو صحیح صورت حال سے آگاہ ہی نہیں کیاجاتا ۔خود راقم کے ساتھ ایسا ہوا کہ ایک نکاح پڑھایا گیا اور بتایا گیا کہ لڑکی کنواری ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ لڑکی شادی شدہ تھی اور پہلے خاوند سے طلاق بھی نہیں لی گئی تھی ایسے حالات میں نکاح خواں کا کیاقصور ہے، ہاں، اگراس نے جانتے بوجھتے ہوئے یہ نکاح پڑھایا تونکاح خواں بھی جرم میں برابرکاشریک ہے ۔اسی طرح گواہوں کا معاملہ ہے۔ ایسا کرنے کے باوجود ان کے نکاحو ں پرکوئی اثر نہیں پڑتا ۔نکاح ختم ہونے کے لئے ضروری ہے کہ خاوند طلاق دے یا وہ دین اسلام سے برگشتہ ہوجائے ۔مذکورہ صورت میں کوئی ایساکام نہیں ہواجس کی بنا پرنکاح خواں یاگواہوں کے نکاح کو کا لعدم قرار دیاجائے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:339

تبصرے