سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(318) طلاق کے لیے اور لفظ استعمال کرنا

  • 12309
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1331

سوال

(318) طلاق کے لیے اور لفظ استعمال کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے اپنی بیوی کوکسی معاملہ پر جھگڑتے وقت کہا: اگر تم نے میرا کہنا نہیں ماننا تو جاؤ، پھرمیں نے تڑاق کالفظ کہہ دیا میری بیوی اوراس کی دونوں بہنوں نے کہاتم نے لفظ طلاق بولا ہے۔ بہرصورت ہم بیوی خاوند اس واقعہ کے دوسرے دن سے ہی خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہمیں کسی نے کہاکہ ایساکہنے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں بتایا جائے کہ کیا واقعی ایساکہنے سے طلاق ہوجاتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لفظ تڑاق کسی چیز کوتوڑ تے وقت جوآواز پیداہوتی ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے اوریہ لفظ طلاق کے لئے صریح نہیں ہے ۔اگرخاوند نے اپنی بیوی کومحض ڈرانے دھمکانے کے لئے یہ لفظ استعمال کیا ہے توسرے سے طلاق واقع نہیں ہوئی اور اگرطلاق دینے کی نیت سے کہا توایساکہنے سے رجعی طلاق ہو جاتی ہے، اس طلاق کاحکم یہ ہے کہ عدت کے اندراندرتجدید نکاح کے بغیررجوع ہوسکتا ہے۔ صورت مسئولہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند نے وقوعہ کے اگلے دن ہی بیوی سے رجوع کرلیا جودرست اورجائز ہے، اب انہیں بیوی خاوند کے طورپر رہنے میں شرعاًکوئی حرج نہیں ہے، البتہ ہم اتنی وضاحت کردینا ضروری خیال کرتے ہیں کہ بیوی کوڈرانے دھمکانے کے لیے ایسا مبہم لفظ استعمال نہیں کرناچاہیے ۔جوباعث نزاع اور موجب اشتباہ ہو۔مذکورہ صورت میں بیوی اوراس کی دونوں بہنوں نے اسے طلاق ہی سمجھا، تاہم خاوند کی وضاحت سے یہ اشتباہ دورہوگیا۔ لیکن ایسا کرنادرست نہیں ہے۔ بہرحال طلاق کامعاملہ بہت نازک ہے خاوند کوچاہیے کہ وہ اپنے اس حق کواستعمال کرتے وقت خوب سوچ وبچار کرے ڈرانے دھمکانے کے لئے کوئی اورطریقہ بھی اختیارکیاجاسکتا ہے ۔اب بیوی خاوند کوچاہیے کہ آیندہ حزم اوراحتیاط اورخوش اسلوبی سے زندگی بسرکریں اور ایسی باتوں سے اجتناب کریں جونزاع کاباعث ہوں۔    [واللہ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:331

تبصرے