السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک عورت کواس کے خاوند نے طلاق دیدی جبکہ وہ حاملہ تھی۔ تقریباًطلاق کے ڈیڑھ ماہ بعد وضع حمل ہوا۔ کیارجوع ممکن ہے اگررجوع ممکن نہیں تودوران عدت اپنے اخراجات اوربچے کی پیدائش کاخرچہ لے سکتی ہے، نیز نوزائیدہ بچے کاذمہ دارکون ہے جبکہ والدہ اسے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی۔ اس کے علاوہ نکاح کے وقت جوعورت کووالدین کی طرف سے سازوسامان دیاگیا تھا یاخاوند کوسسرال کی طرف سے جوتحائف دیے گئے تھے ،ان کی واپسی کا مطالبہ کرناشرعاًکیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال واضح ہو کہ اگرخاوند نے اپنی بیوی کورجعی طلاق دی ہے توعدت کے دوران اسے رجوع کرنے کاحق ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ان کے خاوند اگرصلح کرناچاہیں تودوران عدت اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں‘‘ ۔ [۲/البقرہ :۲۲۸]
اگرعدت گزرجائے توایک دوسری شکل ہوگی وہ یہ کہ اگربیوی آنے پرآمادہ ہوتونئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح جدید ہوگا کیونکہ عدت کے گزرنے سے نکاح ختم ہوجاتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’: ’اور جب تم عورتوں کوطلاق دواوروہ اپنی عدت کوپہنچ جائیں توانہیں پہلے خاوند سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقہ سے آپس میں نکاح کرنے پرراضی ہوں۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۳۲]
صورت مسئولہ میں عورت بوقت طلاق حاملہ تھی اورحاملہ مطلقہ کی عدت وضع حمل ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اورحمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ۔‘‘ [۶۵/الطلاق:۴]
مذکورہ عورت کاطلاق کے بعد وضع حمل ہوچکا ہے ،جس کے ساتھ ہی اس کی عدت بھی ختم ہوچکی ہے چونکہ نکاح بھی ختم ہوچکا ہے اب رجوع کی صرف ایک صورت ہے کہ اگرلڑکی اپناگھر بسانے پرآمادہ ہے توجدید نکاح سے ایساممکن ہے لیکن اس کے متعلق عورت پرکوئی دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا ،کیونکہ اب معاملہ عورت کی صوابدیداوررضامندی پرموقوف ہے ۔
دوران عدت خاوند کواپنی مطلقہ بیوی کے جملہ اخراجات بھی برداشت کرناہوں گے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور اگر (مطلقہ عورتیں )حمل سے ہوں تووضع حمل تک ان کاخرچہ دیتے رہو۔‘‘ [۶۵/الطلاق:۶]
اس کے علاوہ وضع حمل پراٹھنے والے اخراجات کابھی خاوند سے مطالبہ کیاجاسکتا ہے کیونکہ عورت نے بچہ خاوند کاہی جنم دیا ہے بچے کی پیدائش کے بعد جب تک ماں بچے کودودھ پلاتی رہے گی تواس کے جملہ اخراجات بھی بذمہ خاوند ہوں گے اوراس سے ان اخراجات کامطالبہ کیاجاسکتا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’پھر اگروہ بچے کوتمہارے کہنے پردودھ پلائیں توانہیں ان کی اجرت دو۔‘‘ [۶۵/الطلاق:۶]
دوسرے مقام پراللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اوردودھ پلانے والی ماؤں کاکھانا اورلباس دستور کے مطابق باپ کے ذمہ ہوگا۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۳۳]
اگرمطلقہ بیوی بچے کودودھ نہیں پلاناچاہتی تواسے مجبور نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ماں کواس کے بچے کی وجہ سے نقصان نہ پہنچایاجائے۔‘‘ [۲/البقرہ:۲۳۳]
اندریں حالات صورت مسئولہ میں اگر مطلقہ اس نوزائیدہ بچے کواپنے پاس رکھناچاہتی ہے تویہ اس کا حق ہے اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کہ یہ تمام باتیں اس صورت میں ہیں جب عورت رجوع، یعنی تجدید نکاح پررضامندنہ ہو اگر وہ رجوع پر راضی ہے توکوئی پیچیدگی نہیں ہے ۔رجوع نہ ہونے کی صورت میں والدین کی طرف سے اپنی بچی کوجوسازوسامان دیاگیا۔ خاوند سے اس سامان کی واپسی کامطالبہ کرناشرعاًدرست ہے کیونکہ وہ لڑکی کاذاتی سامان ہے جو اس کے والدین نے اسے استعمال کے لئے دیاتھا طلاق کے بعد خاوند کااس میں کوئی حق نہیں ہے لیکن جوسامان نکاح کے بعد استعمال ہوچکا ہے یاٹوٹ پھوٹ گیا ہے اس کامطالبہ صحیح نہیں ہے ۔اسی طرح سسرال کی طرف سے خاوند کوشادی کے موقع پر تحفہ یاہدیہ دے کرپھر اس کی واپسی کامطالبہ کرناایسا ہے جیسے کتا اپنی قے کوچاٹتا ہے۔ شریعت نے اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ہمارے ہاں ہدیہ دے کر واپسی کامطالبہ کرنے والے کے لئے اس سے بڑھ کرکوئی بری مثال نہیں ہے کہ کتااپنی قے کوچاٹتا ہے ۔ ‘‘ [صحیح بخاری ،الھبۃ : ۲۶۲۲]
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم قے کوحرام جانتے ہیں یعنی ہبہ دے کرواپسی کامطالبہ کرناحرام ہے ۔
مختصر یہ ہے کہ حاملہ عورت کواگرطلاق دی جائے تواس کی عدت وضع حمل ہے ۔دوران عدت نکاح جدید کے بغیررجوع ہوسکتا ہے ۔وضع حمل کے بعد عورت کی رضامندی سے نئے حق مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نیانکاح کرکے رجوع ممکن ہے۔ دوران عدت خاوند کواپنی بیوی کے جملہ اخراجات برداشت کرناہوں گے اوربچے کی پیدائش پراٹھنے والے اخراجات کابھی وہ خود ذمہ دار ہے۔شادی کے موقع پروالدین نے جوبچی کوسازوسامان دیاتھا اس کامطالبہ خاوند سے کیاجاسکتا ہے، لیکن اس موقع پر خاوند کوجوتحائف وغیرہ دیے گئے ہیں ان کی واپسی کامطالبہ صحیح نہیں ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب