سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(291) نشے کی حالت میں طلاق دینا

  • 12282
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4278

سوال

(291) نشے کی حالت میں طلاق دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے شراب کے نشہ میں مدہوش اپنی بیوی کوطلاق دے دی ،جب اسے ہوش آیا تو اسے بتایا گیا کہ تو نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے تواس نے سراسر انکار کردیا کہ مجھے اس کاعلم نہیں ۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ نشہ اور بیماری کی مدہوشی میں طلاق ہوجاتی ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کے لئے ضروری ہے کہ خاوند طلاق دیتے وقت خودمختار ،مکلف اورکامل ہوش وحواس میں ہو ،حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ طلاق اورآزادی اغلاق میں نہیں ہوتی ۔‘‘     [ابوداؤد، الطلاق:۲۱۹۳]

 محدثین نے اغلاق کے دومفہوم بیان کئے ہیں:

1۔  زبردستی لی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

2۔   شدید غصے اورسخت نشہ میں جب انسان کی عقل پرپردہ پڑجائے توایسی صورت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حالت نشہ میں موجودانسان اورمجبورشخص کی طلاق جائز نہیں ہے ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ [صحیح بخاری، الطلاق:۱۰]

                امام بخاری رحمہ اللہ  نے حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’پاگل اوربحالت نشہ کی طلاق نہیں ہے۔‘‘ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  کے پاس ایک ایسا آدمی لایاگیا جس نے نشہ کی حالت میں اپنی بیوی کوطلاق دی تھی ۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ اسے شراب کی حدلگائی جائے اوراس کی بیوی کوالگ کردیاجائے ،ان سے حضرت ابان بن عثمان نے بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ  کے نزدیک جنون اور نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ۔اس کے بعد آپ نے صرف حدلگائی لیکن اس کی بیوی کواس سے الگ نہ کیاکیونکہ اس حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔    [بیہقی ،ص: ۳۵۹،ج ۷]

 ہمارے نزدیک نشہ کی حالت میں عقل ماؤف ہونے کے اعتبار سے دیوانگی کی ہی ایک قسم ہے۔ جنون کے متعلق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’تین آدمی مرفوع القلم ہیں۔ ایک سو نے والا حتی کہ بیدارہوجائے، دوسرابچہ حتی کہ وہ بالغ ہوجائے اور تیسرا پاگل حتیٰ کہ عقل مندہوجائے۔‘‘     [نسائی، الطلاق: ۳۴۳۲]

 اس بنا پر نشہ کی حالت میں دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہوتی لیکن اس بات کابغور جائز ہ لیناہوگا کہ نشے کی حالت میں جب طلاق دی گئی تھی تواس وقت نشہ ابتدائی مرحلہ میں تھا یا پورے عروج پرتھا۔اگرابتدائی مرحلہ ہے کہ نشہ کرنے والاکاعقل و شعور پوری طرح ختم نہیں ہوابلکہ اسے طلاق دینے کاعلم تھا توایسی حالت میں طلاق واقع ہوجائے گی اوراگر نشہ کرنے والا ایسی حالت میں ہے کہ اسے عقل وشعور نہیں بلکہ اسے طلاق دینے کا قطعاً علم نہیں تو ایسی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ طلاق دہندہ کی عقل ماؤف ہوچکی ہے جبکہ طلاق کے مؤثرہونے کے لئے بقائم ہوش و حواس ہوناضروری ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:306

تبصرے