سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(286) طلاق دینے کے بعد بھی ازدواجی تعلق قائم رکھنا

  • 12277
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1728

سوال

(286) طلاق دینے کے بعد بھی ازدواجی تعلق قائم رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے خاوند نے مجھے طلاق دی ،پھرمیرے کہنے پروہ دوران عدت ملتا رہا ،باہمی ملاقات اس طرح ہوتی رہی کہ وظیفہ زوجیت کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہا ،جومیاں بیوی میں ہوتا ہے ایک دوسرے کے جسم کوہاتھ لگانا اوربوس وکنار کرنایہاں تک کہ بے لباس بھی ہوجانا ،لیکن اس دوران میراخاوند مجھے یہ بھی کہتارہا ،کہ میرارجوع کاارادہ نہیں ہے صرف آپ کی خوشی کے لئے ایسا کر رہا ہوں۔ کیاشریعت کی نظرمیں طلاق کے بعد ایسے تعلقات سے رجوع ہوسکتا ہے یانہیں ؟اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طلاق کے بعد رجوع کرناخاوند کاحق ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان کے خاونددوران عدت انہیں لوٹالینے کا زیادہ حق دار ہیں اگران کاارادہ اصلاح کاہو۔‘‘    [۲/البقرہ :۲۲۸]

 اہل علم کااس بات پراجماع ہے کہ جب کوئی آزادشخص اپنی آزادبیوی کوپہلی یادوسری رجعی طلاق دے تووہ اس سے رجوع کرنے کازیاہ حق دار ہے، خواہ عورت اسے ناپسند ہی کیوں نہ کرتی ہو۔     [مغنی، ص: ۵۴۷،ج ۱۰]

اور رجوع قول اورعمل دونوں سے ہو سکتا ہے، یعنی گفتگو اورکلام وغیرہ سے کہے کہ میں اپنی بیوی سے رجوع کرتا ہوں یااپنی بیوی سے جماع اورہم بستری کرے ۔فقہا کی اکثریت نے ہم بستری سے رجوع کی صورت میں نیت اورارادہ کو ضروری قرارنہیں دیا ہے جبکہ امام مالک اوراسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ ہم بستری کے ذریعے اس وقت رجوع ہوگا جب اس کی نیت ہو بصورت دیگر رجوع نہیں ہوگا ۔ہمارے نزدیک جماع کی صورت میں رجوع کی صحت کے لئے ارادہ کی شرط لگانا صحیح نہیں ہے۔ لیکن صورت مسئولہ میں وظیفہ زوجیت کے علاوہ بیوی سے بوس وکنار یاایک دوسرے کے جسم کوہاتھ لگانا سے رجوع ہوسکے گا یا نہیں ،اس میں اختلاف ہے، امام احمد فرماتے ہیں کہ بیوی سے بوس وکنار کرنا،اسے شہوت سے ہاتھ لگانا یااس کی شرمگاہ کودیکھنا اور بغل گیر ہونایہ رجوع کے لئے کافی نہیں ہے جب تک وہ عملاًجماع نہ کرے۔     [مغنی ،ص: ۵۶۰،ج ۱۰]

جبکہ احناف کاموقف ہے کہ بیوی سے بوس وکنار اورشہوت کے ساتھ ہاتھ لگانارجوع ہے، اسی طرح شرمگاہ کودیکھ لینابھی رجوع ہے۔     [احکام القرآن للقرطبی ،ص: ۱۵۸،ج ۱۸]

ان حضرات کاکہنا ہے کہ مذکورہ اموررجوع کے مترادف ہیں کیونکہ خاونداسے بیوی خیال کرکے ہی ایسا کرتا ہے لیکن ہمارے نزدیک وظیفہ زوجیت کے علاوہ مذکورہ اموررجوع کے لئے کافی نہیں ہیں اور یہ کہناکہ خاوند اسے بیوی خیال کرکے یہ امور سرانجام دیتا ہے۔ رجو ع کے لئے کافی نہیں ہیں کیونکہ دوران عدت مطلقہ بیوی ہی رہتی ہے، خواہ خاوندمذکورہ امورسرانجام دے یانہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوی خاوند میں سے اگرکوئی دوران عدت فوت ہوجائے تو زندہ رہنے والے کومرنے والے کاوارث بنایاجاتا ہے اور اس کے ترکہ سے اسے حصہ دیاجاتا ہے ۔

لیکن صورت مسئولہ میں توخاوند یہ امورسرانجام دینے کے باوجودبرملاکہتاہے میرا قطعی طور پر رجوع کرنے کاارادہ نہیں ہے۔صرف بیوی کوخوش رکھنے کے لئے یہ کام کئے ہیں ۔بہرحال ہمارے نزدیک مذکورہ اموررجوع کے لئے کافی نہیں ہیں، اگر بیوی خاوند نے انہیں رجوع خیال کرکے اکٹھا رہناشروع کردیاہے حتی کہ عدت گزرچکی ہے توان کانکاح بھی ختم ہوچکا ہے اب انہیں فوراًالگ ہو جانا چاہیے، استبرائے رحم کے لئے چند دن تک توقف کیاجائے ،پھرنکاح جدید سے اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز کیا جائے، نکاح جدید کے بغیربیوی خاوند کی حیثیت سے زندگی گزارنا گناہ کی زندگی ہے جس سے ایک مسلمان کواجتناب کرناچاہیے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:301

تبصرے