سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(285) طلاق نامہ کی شرعی حیثیت

  • 12276
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1897

سوال

(285) طلاق نامہ کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا گھرمیں اپنی بیوی سے جھگڑا ہوا، میں نے اپنی پھوپھی سے اس کاتذکرہ کیاتواس نے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو، میں اپنی لڑکی سے تیرانکاح کردیتی ہوں ،انہوں نے خودطلاق نامہ لکھوایا اوراس پر میرے دستخط کرانے کے بعد اصل مجھے دے دی اوراس کی فوٹوکاپی اپنے پاس رکھ لی ،جب میں واپس آیا توسوچا کہ میری طرف سے یہ زیادتی ہے ،میں نے اس تحریر کو پھاڑ کر پھینک دیااور گھر میں بیوی خاوندکی حیثیت سے زندگی گزارتا رہا ،پھرمیرانکاح پھوپھی زاد سے ہوگیا ،کسی وجہ سے میرااس سے جھگڑا ہوا توانہوں نے چھ سال بعد طلاق نامہ کی فوٹوکاپی کے ذریعے مجھے خاندان میں بدنام کرناشروع کردیا ہے، اب مجھے بتایا جائے کہ اس پرانی فوٹوکاپی کی شرعاًحیثیت کیا ہے جبکہ اصل میں نے خودپھاڑدی تھی اوراسے کالعدم قرار دے دیاتھا؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں میری راہنمائی کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ کے متعلق دوتین امور کی وضاحت کرناضروری ہے:

 ٭  طلاق ہمارے معاشرے کابہت نازک مسئلہ ہے لیکن ہم اس کے متعلق انتہائی غیرذمہ دارواقع ہوتے ہیں ۔طلاق کا انتہائی اقدام کرنے سے پہلے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق تین چار اقدامات کرناہوتے ہیں لیکن ہم انہیں عمل میں لائے بغیر معمولی جھگڑے کوبنیادبناکرطلاق دے ڈالتے ہیں ،جسے شریعت نے پسند نہیں کیاہے ۔سائل کاگھرمیں اپنی بیوی سے معمولی اختلاف ہوا ، ردعمل کے طورپر فوراًطلاق تک نوبت پہنچ گئی ۔

٭  اپنی بیٹی یابہن کے رشتہ کی پیشکش کرتے ہوئے پہلی بیوی کوطلاق دینے کا مطالبہ کرناانتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے ۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ نکاح سے قبل اپنی (دینی )بہن کی طلاق کامطالبہ کرے تاکہ جوکچھ اس کے برتن میں ہے اسے انڈیل دے اسے وہی کچھ ملے گا جواس کے مقدرمیں ہے۔‘‘  [صحیح بخاری ، النکاح :۵۱۵۳]

یہ ایسی شرط ہے جس کانکاح جیسے معاملات میں جوازنہیں ہے ۔صورت مسئولہ میں اس حدیث کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

٭  نکاح کے بعد طلاق دینا خاوندکااختیار ہے اس کے لئے بیوی کواطلاع دیناضروری نہیں ہے۔ زبانی طلاق دینا یاتحریر کر دینا کافی ہے اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، یعنی خاوند کوجواللہ تعالیٰ نے بیوی کوتین طلاق دینے کااختیار دیا ہے ایساکرنے سے ایک اختیار استعمال کربیٹھتا ہے ۔صورت مسئولہ میں خاوند نے ایک اختیار استعمال کرلیا ہے ۔

٭  طلاق کے بعد رجوع کااختیار بھی خاوند کوحاصل ہے بشرطیکہ دوران عدت ہو،اس کے لئے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ، صورت مسئولہ میں خاوند کااپنی بیوی کے ساتھ تعلقات زن وشوئی قائم کرنارجوع ہی کی ایک صورت ہے۔طلاق نامہ کواپنی مرضی سے پھاڑنا بھی رجوع ہے ،اگریہ واقعات حقیقت پرمبنی ہیں توخاوند نے اپنی بیوی کوطلاق دے کراس سے رجوع کرلیا ہے، اس رجوع کے بعد اگرکسی دوسرے کے پاس اصل طلاق نامہ کی فوٹوکاپی ہے تواس کی شرعاًکوئی حیثیت نہیں ہے ۔اسے استعمال کرناکوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔الغرض صورت مسئولہ میں ایک طلاق ہوچکی ہے اوراس سے رجوع بھی صحیح ہے ۔دوسری بیوی کے سسرال کاطلاق نامہ کی فوٹوکاپی استعمال کرنااوررشتہ داروں میں اسے بدنام کرناشرعاًناجائز ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:300

تبصرے