سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(423) روزہ دار کا ناک’کان اور آنکھ میں دوائی ڈالنا

  • 1225
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2688

سوال

(423) روزہ دار کا ناک’کان اور آنکھ میں دوائی ڈالنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

روزہ دار کے لیے ناک، آنکھ اور کان میں دوائی کا قطرہ ڈالنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

ناک میں ڈالے جانے والا قطرہ اگر معدہ تک پہنچ جائے، تو اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حدیث حضرت لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ  میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا تھا:

«بَالِغْ فِی الْاِسْتِنْشَاقِ اِلاَّ اَنْ تَکُوْنَ صَائِمًا»( سنن ابي داؤد، الطهارة، باب فی الاستنثار، ح: ۱۴۲ وسنن النسائی الطهارة، باب المبالغة فی الاسستنشاق، ح: ۸۷)

’’ناک میں پانی چڑھانے میں خوب مبالغے سے کام لو اِلاَّ یہ کہ تم روزہ دار ہو۔‘‘

لہٰذا روزہ دار کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ناک میں ایسا قطرہ ڈالے جو اس کے معدے تک پہنچ جائے اور ناک میں ڈالے جانے والا دوائی کا جو قطرہ معدے تک نہ پہنچے، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ آنکھ میں ڈالنے والے قطرے، سرمہ لگانے اور کان میں ڈالے جانے والے قطرے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ کیونکہ اس کے بارے میں کوئی نص نہیں ہے اور نہ یہ منصوص علیہ کے معنی میں ہے۔ آنکھ کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، اسی طرح کان بھی جسم کے دیگر مساموں کی طرح ہے۔ اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ اگر کوئی شخص پاؤں کی اندرونی جانب کوئی چیز لگائے اور وہ اپنے گلے میں اس کا ذائقہ محسوس کرے، تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ یہ بھی کھانے پینے کا راستہ نہیں ہے، لہٰذا جو شخص آنکھ میں سرمہ ڈال لے یا آنکھ میں دوائی کا قطرہ ڈال لے یا کان میں قطرہ ڈال لے تو اس سے اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا خواہ وہ اس کا ذائقہ حلق میں محسوس کرے۔ اسی طرح اگر کوئی انسان علاج کے لیے یا بغیر علاج کے تیل استعمال کرے، تو اس کے روزے کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اسی طرح اگر کوئی دمہ کا بیمار ہو اور وہ سانس میں آسانی کے لیے ان ہیلر استعمال کر لے، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا کیونکہ اس سے دوائی کے اجزا معدے تک نہیں پہنچتے، لہٰذا وہ  کھانے یا پینے والا شمار نہیں ہوگا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ390

محدث فتویٰ

تبصرے