السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی کے دولڑکے اوردولڑکیاں ہیں۔ اس نے اپنی ایک لڑکی کے نام اپنی 88ایکڑزمین میں سے 10ایکڑزمین الاٹ کر دی۔ اس کے بعد اس لڑکی نے اپنی اوراپنے لڑکے کی رضامندی سے اپنے باپ سے ملنے والی زمین اپنے پوتے کے نام منتقل کردی ۔اب لڑکی کابھتیجامطالبہ کرتا ہے کہ وہ زمین واپس لی جائے اورجس کے نام زمین باہمی رضامندی سے الاٹ کی گئی تھی وہ واپس نہیں کرتا۔قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کا کیا حل ہے؟۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جوزمین لڑکی کواپنے والد کی طرف سے ملی ہے وہ اس میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرسکتی ہے کیونکہ وہ اب اس کی ملکیت ہے ۔اگراس نے اپنے قریبی وارث بیٹے کی موجودگی میں اس کی رضامندی سے اپنے پوتے کے نام منتقل کردی ہے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ ہبہ کی ایک صورت ہے۔ اب بھائی کے لڑکے یعنی بھتیجے کواس پراعتراض کاکوئی حق نہیں ہے جب ہبہ برضا ورغبت بلاجبر واکرا ہ ہو تواسے واپس نہیں لیاجاسکتا ۔حدیث میں ہے کہ ’’جوہبہ دے کرواپسی کامطالبہ کرتا ہے وہ کتے کی طرح ہے جوقے کرنے کے بعد اسے چاٹتا ہے۔‘‘ [ابو داؤد ،البیوع :۳۵۴۰]
لہٰذا اس کاحل یہی ہے کہ پوتے کے نام الاٹ شدہ زمین واپس نہ لی جائے اورکسی دوسرے کواس عطیہ پرکوئی اعتراض نہیں ہوناچاہیے ،کیونکہ یہ اچھے اورخوشگوار ماحول میں سرانجام پایا ہے ۔ [واللہ اعلم بالصواب]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب