السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک انشورنس کمپنی E.F.Uکا دعویٰ ہے کہ ہم رقم کوبزنس میں لگاتے ہیں اورمنافع یانقصان سرمایہ لگانے والوں میں تقسیم کردیتے ہیں ہم بنک یادوسری سیونگ سکیموں کی طرح منافع کی شرح فکس نہیں کرتے ،اس کے متعلق واضح کریں کہ ایسی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنا شرعاًدرست ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
انشورنس جسے بیمہ کہاجاتا ہے ایک جدید کاروبار ی معاملہ ہے جس کااسلامی فقہ کے ابتدائی دور میں کوئی وجود نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ دورحاضر کے جن ماہر ین علم نے اس پربحث کی ہے ان کی آراء مختلف ہیں۔ بعض اس کے جائز ہونے کی طرف رجحان رکھتے ہیں جبکہ بعض دوررس اورباریک بین حضرات نے اس کے برعکس اس کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے، لہٰذا اس کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنے سے پہلے اس معاملہ کی اصل حقیقت جاننا انتہائی ضروری ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بیمہ نظریہ کے اعتبار سے باہمی تعاون اورامداد محض پرقائم ہے ۔نظریے کی حد تک یہ ایک ایسا امر ہے جس میں شریعت نے بھی ابھاراہے۔ دین اسلام نے ہمیں باہمی تعاون ،ایک دوسرے کی مدد ،ایثار اورقربانی دینے کی ترغیب دی ہے، جس کی عملی صورت معاملات ،عطیات اورصدقات وخیرات ہیں ۔شریعت اسلامیہ نے جہاں اغراض ومقاصد بیان کئے ہیں وہاں ان ذرائع ووسائل کوبھی بیان کیا ہے جوان مقاصد کے حصول کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ بیمہ نظریہ اورنظام کے اعتبارسے تو تعاون محض پر قائم تھا لیکن عملی طورپر جوذرائع استعمال کئے گئے ہیں وہ اس نظریہ کی نفی کرتے ہیں، جیسا کہ آیندہ معلوم ہو گا دراصل امداد باہمی پرمبنی یہ نظام جب یہود یانہ ذہنیت کی بھینٹ چڑھا تواسے پہلے توکاروباری شکل دے دی گئی، پھرسود ،دھوکہ اورجوئے جیسے بدترین عوامل وعناصر کواس میں شامل کرکے اس پرسے تعاون محض کی چھاپ کواتاردیا گیا یہ بیمہ اشخاص اورکمپنی کے درمیان ایک خاص عقد کانام ہے جس میں افراد اور کمپنیوں کے درمیان مندرجہ ذیل امورطے پاتے ہیں
1۔ طالب بیمہ ایک معینہ مدت تک بالاقساط ادا کرتا ہے اس کے عوض بیمہ کمپنیاں اسے خطرات سے تحفظ اورگراں قدر سالانہ منافع پیش کرتی ہیں۔
2۔ یہ کمپنیاں اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہیں اس رقم کوصرف کریں۔ طالب بیمہ اس سے قطعی طورپر لاتعلق ہوتا ہے۔ یہ رقم جائز وناجائز کاموں پرصرف کی جاتی ہے جیسے عمارات کی تعمیر اوربھاری شرح سود پرآگے بڑی کمپنیوں کوقرض دینا وغیرہ ۔
3۔ طالب بیمہ اگرمعینہ مدت تک زندہ رہے اورپوری رقم بالاقساط ادا کردے تووہ کمپنی سے ادا کردہ رقم سے زائد وصول کرنے کاحقدار ہوجاتا ہے۔ اگراس مدت سے پہلے مرجائے تواس کی طرف سے نامزدشخص زربیمہ کامستحق ہوتا ہے۔
4۔ اگرطالب بیمہ معینہ مدت سے پہلے اپنی اقساط بند کرکے معاہدہ بیمہ کوختم کرناچاہے توجمع شدہ رقم کمپنی ضبط کرلیتی ہے ۔
بیمہ کی تعریف مختصرطورپر یوں کی جاسکتی ہے کہ یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس کی رو سے تحفظ دھندہ، یعنی بیمہ کمپنی پریہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس شخص کوجس نے بیمہ پالیسی خریدی ہے حادثہ یا نقصان پہنچنے کی صورت میں ایک مخصوص رقم ادا کرے۔ اس تعریف سے بیمہ کے تین عناصر کاپتہ چلتا ہے وہ یہ ہیں :
1۔ بیمہ کی قسط 2۔ خطرہ 3۔ بیمہ کی رقم
خطرہ سے مراد امکانی حادثہ ہے جومستقبل میں کسی وقت بھی پیش آسکتا ہے یہ خطرہ اورحادثہ ہی اس کاروباربیمہ میں بنیادی حیثیت کاحامل ہے اورباقی دوسرے عناصر کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس کاروبار کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ معاہدہ کی روسے فریقین ذمہ داربن جاتے ہیں اس میں ایک فریق خطرات سے تحفظ فراہم کرنے والا ہے اوردوسراوہ جسے تحفظ فراہم کیاجاتا ہے ۔ جسے طالب بیمہ کہتے ہیں اس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اقساط بیمہ کی ادائیگی کابروقت بندوبست کرے،یہ ذمہ داری معاہدہ کی تکمیل کے وقت ہی شروع ہوجاتی ہے جبکہ اس کے مقابلہ میں بیمہ کمپنی کی ذمہ داری غیریقینی اوراحتمالی ہوتی ہے کیونکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حادثہ پیش آنے کی صورت میں بیمہ کی رقم اداکرے، اس ذمہ داری کے وجود کاتصور اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ کوئی حادثہ پیش آئے ،اس وجہ سے دھوکہ اوراحتمال اس کاروبار کابنیادی رکن اورلازمی عنصر ہے کیونکہ بیمہ کاکاروبار اس کے بغیر ناممکن ہے اوریہ دھوکہ اپنی نوعیت اورقسم کے لحاظ سے انتہائی سنگین ہے ۔کیونکہ حصول معاوضہ کے سلسلہ میں اس کی مقدار اوراس کی مدت کے بارے میں پایا جاتا ہے جبکہ شریعت نے کاروباری معاملات میں دھوکہ کی معمولی قسم کوبھی حرام ٹھہرایا ہے۔ دھوکے کوعربی زبان میں ’’غرر‘‘کہتے ہیں جس کی تعریف یہ ہے کہ ’’وہ غیر طبعی ،غیر معمولی اورغیریقینی صورت حال جس کے پیش نظر کسی معاملہ یالین دین کے ضروری پہلو متعین نہ کئے جاسکیں اورفریقین آخروقت تک اس معاملہ میں غیر یقینی کاشکاررہیں کہ ان کے معاملہ کی اصل صورت بالآخرکیاہوگی ۔‘‘ غررکی متعدد تعریفات سے اس کے جواہم عناصر سامنے آئے ہیں، وہ شک وشبہ ،غیر یقینی کیفیت اورمعاملہ کے بنیادی اجزاء کاغیر معلوم اور غیرمعین ہونا ہے۔ جس معاملہ میں یہ عناصر پائے جائیں وہ معاملہ مبنی بردھوکہ سمجھاجائے گا اورشریعت میں ایسا معاملہ ناجائز اورحرام ہے۔ ہم اس مقام پریہ وضاحت کردیناضروری خیال کرتے ہیں کہ بیمہ کے متعلق محل اختلاف اس کا نظریہ اورنظام ہرگز نہیں ہے بلکہ محل اختلاف وہ طریق کاراورذریعہ ہے جواس کے نظریہ کوعملی جامہ پہنانے کے لئے اختیار کیاگیا ہے۔ اس کے طریق کار کے پیش نظر کاروبارغیریقینی اورسنگین دھوکے والا معاملہ ہے۔ اس کے غیریقینی ہونے سے یہ مراد ہے کہ اس میں فریقین میں سے ہرایک کومعاہدہ کی تکمیل کے وقت معاوضہ کی اس مقدار کاعلم نہیں ہوتا جووہ ادا کرے گا یاوصول کرے گا۔ اس لئے کہ وہ تواس خطرہ کے وقوع یاعدم وقوع پرموقوف ہوتا ہے جس سے تحفظ دیا گیا ہے اوریہ بات اللہ کے علاوہ اورکوئی نہیں جانتا کہ حادثہ پیش آئے گا یانہیں، اگرآئے گا توکب آئے گا ؟بعض اوقات طالب بیمہ ایک ہی قسط ادا کرنے کے بعد حادثے سے دو چار ہوجاتا ہے اوررقم بیمہ کاحقدار بن جاتا ہے جبکہ بعض اوقات پوری اقساط اداکرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا ،اس طرح تحفظ فراہم کرنے والی بیمہ کمپنی کومعاہدہ کے وقت علم نہیں ہوتا کہ وہ کیاوصول کرے گی اورکیاادا کرے گی کیونکہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے اوراسے بیمہ کی رقم طالب بیمہ کواداکرناپڑتی ہے اوربعض اوقات پوری اقساط وصول کرلیتی ہے، لیکن حادثہ پیش ہی نہیں آتا ،اس طرح یہ معاملہ سراسرایک ’’اندھا سودا‘‘ ہے۔ جس میں دھوکے کاپہلو نمایاں طورپر موجود ہے جس کی مزید وضاحت حسب ذیل ہے:
مالی معاملات میں دھوکہ چارطرح سے ہوسکتا ہے۔
1۔ خودکسی چیز کے وجود میں دھوکہ ہو،جیساکہ گم شدہ اونٹ کی خریدوفروخت ۔
2۔ کسی چیز کے حصول میں دھوکہ ہو،جیسے اڑتے ہوئے پرندوں کی خریدوفروخت ۔
3۔ کسی چیز کی مقدار میں دھوکہ ہو،جیسا کہ پتھر پھینکنے کی جگہ تک زمین کی خریدوفروخت ۔
4۔ مدت حصول میں دھوکہ، جیسا کہ حمل کے جنم تک قیمت ادا کرنا وغیرہ کاروبار بیمہ میں دھوکہ کی یہ چاروں اقسام پائی جاتی ہیں ۔
٭ کسی چیز کے وجود میں دھوکے کاپایا جانا ،یہ دھوکہ کی شدیدترین قسم ہے یہی وجہ ہے کہ فقہا نے صرف معدوم چیز کے معاوضہ پرہی بطلان کاحکم نہیں لگایا بلکہ وہ اس کے حکم کے تحت ہراس چیز کوشامل کرتے ہیں جس کے وجود اورعدم دونوں کااحتمال ہو،دھوکہ کی یہ قسم کاروبار بیمہ میں پوری طرح دیکھی جاسکتی ہے کیونکہ بیمہ کی جورقم کمپنی کے ذمے ہوتی ہے اس کاوجود غیر یقینی ہے کیونکہ اس کاوجودحادثہ پرموقوف ہوتا ہے اوروہ خودغیریقینی ہے ۔
٭ کسی چیز کے حصول میں دھوکہ پایا جانا اس کے معاوضہ کوباطل کردیناہے، جیسا کہ دریامیں تیرتی ہوئی مچھلیوں کی قیمت ادا کرنا کیونکہ جوشخص ان کی قیمت اداکرتا ہے وہ گویا ان کے حصول کوداؤ پر لگارہاہے وہ معاملہ کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ اس نے جس چیز کی قیمت ادا کی ہے وہ اسے حاصل بھی کرسکے گا یانہیں، جبکہ اس نے معاوضہ صرف اس چیز کوحاصل کرنے کے لئے اد اکیا ہے بیمہ کے کاروبار میں بھی یہ دھوکہ پایا جاتا ہے کیونکہ طالب بیمہ معاہدہ کرتے وقت یہ نہیں جانتا کہ آیا بیمہ کی جس رقم کے بدلے اس نے اقساط اداکی ہیں وہ اسے حاصل کرسکے گا یا نہیں، کیونکہ اس کاحصول تواس حادثہ پرموقوف ہے جس کاواقع ہونا یقینی نہیں ہے ۔
٭ معاوضہ کی مقدار کادھوکہ بھی وجود اورحصول کی طرح معاوضہ کوباطل کر دیتاہے، جیسا کہ مٹھی بندروپوں کے عوض کوئی چیز خریدنا شرعاًباطل ہے اس طرح نقصانات کے بیمہ میں طالب بیمہ کومعاہدہ کرتے وقت اس معاوضہ کی مقدار کاعلم نہیں ہوتا جو بیمہ کمپنی حادثہ پیش آنے کی صورت میں اداکرے گی اوراس طرح بیمہ کمپنی بھی معاہدہ طے ہوتے وقت اس بات سے بے خبرہوتی ہے کہ وہ طالب بیمہ سے جوکچھ حاصل کرے گی اس کی مقدار کیاہوگی، کیونکہ بعض اوقات ایک ہی قسط وصول کرنے کے بعد حادثہ پیش آجاتا ہے جبکہ بعض اوقات تمام اقساط وصول کرنے کے باوجود حادثہ پیش نہیں آتا ۔
٭ معاوضے والے معاملات میں اگر مدت معلوم نہ ہوتو بھی معاملہ باطل ہوجاتا ہے، جیسا کہ حمل کی خریدوفروخت، اس لئے منع ہے کہ اس کی معیادغیرمتعین ہوتی ہے۔ اسی طرح تاحیات بیمہ پالیسی میں بیمہ کمپنی ،بیمہ کی رقم طالب بیمہ کے مرنے کی صورت میں ادا کرنے کاعہد کرتی ہے، جبکہ یہ معیاد، یعنی اس کے مرنے کاوقت نامعلوم اورغیرمتعین ہے ۔
بیمہ کامعاملہ ’’جوے‘‘ پر مشتمل ہے ۔
بیمہ کا کاروبار اس لئے بھی حرام اورناجائزہے کہ اس میں جواپایا جاتا ہے جوقرآن کریم کی نظر میں ایک شیطانی عمل ہے حصول زرکی ہروہ شکل جواہے جس میں اسے حاصل کرنے کا دارومدار محض اتفاق وبخت پرہواوردوسرے یکساں حق رکھنے والوں کے مقابلہ میں ایک شخص کسی لاٹری ،قرعہ اندازی یامحض کسی اور اتفاق کے نتیجہ میں رقم کوحاصل کرلے ۔یہ تمام جوے کی اقسام ہیں جوے کی تعریف کاروبار بیمہ پراس طرح صادق آتی ہے کہ جوے میں فریقین اس بات کاعہدکرتے ہیں کہ وہ دوسرے کوایک مقرر ہ رقم کوئی حادثہ پیش آنے پرادا کرے گا ،کاروبار بیمہ میں بھی یہی ہوتا ہے کہ بعض اوقات طالب بیمہ ایک قسط ادا کرنے کے بعد مر جاتا ہے، تو اس کے نامزد کردہ وارث کو اداکردہ رقم سے کئی گنازیادہ رقم مل جاتی ہے ا س کااس طرح مرنا ہی ایک اتفاقی حادثہ ہے جو نامزدوارث کے لئے کثیر رقم ملنے کاباعث بنا ہے تھوڑی سی محنت کرکے اتفاقی طورپر بہت زیادہ رقم ہتھیالینا ’’میسر‘‘ کہلاتا ہے۔ جس سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے۔ اس طرح طالب بیمہ اگرمعینہ مدت سے پہلے اپنے عقد کوفسخ کرناچاہے اوربقیہ اقساط کی ادائیگی روک لے تواس صورت میں کمپنی جمع شدہ رقم کی مالک بن جاتی ہے۔ یہ بھی ’’قمار‘‘ کی ایک قسم ہے جس کی شرعاًاجازت نہیں ہے ۔
اس کاروبارمیں سود کی دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں۔
طالب بیمہ جورقم اقساط کی صورت میں کمپنی کواداکرتا ہے اگرحادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم واپس ملے توایک طرف سے نقدادائیگی اور دوسری طرف سے ادھار ہونے کی بنا پر یہ ادھار کاسود ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں ’’رباالنسیئۃ‘‘ کہتے ہیں اور اگر وہ اداکردہ رقم سے زیادہ ہے تو یہ اضافے کاسودہے جسے ’’رباالفضل‘‘ کہاجاتا ہے کیونکہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ رقم کے عوض ملتی ہے سودیہی ہوتا ہے کہ ایک آدمی کچھ رقم کسی دوسرے کو دیتا ہے، پھرایک خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض وصول کرتا ہے۔ جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگرتم توبہ کرلوتوصرف اپنی رقم کے حقدار ہو۔‘‘ [۲/البقرہ :۲۷۹]
نیز معینہ مدت تک زندہ رہنے اورتمام اقساط ادا کرنے کی صورت میں طالب بیمہ مجموعی رقم سے زائد زربیمہ لینے کامستحق ہوتاہے یہ اضافہ کے ساتھ خطیر رقم یکمشت یابالاقساط لے سکتا ہے۔ یہ سود کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے ۔
کاروبار بیمہ ضابطہ وراثت سے متصادم ہے ۔
یہ کاروبار اس لئے بھی ناجائزہے کہ اس پرعمل کرنے سے ضابطہ وراثت مجروح ہوتا ہے کیونکہ مرنے کی صورت میں زربیمہ کامالک وہ نامزدشخص بن جاتا ہے جوطالب بیمہ نے اپنی زندگی میں مقرر کیاہوتا ہے۔ باقی ورثاء اس سے محروم ہوتے ہیں، حالانکہ اس کے ترکہ میں تمام شرعی ورثاء شریک ہوتے ہیں ۔دورجدید میں فلمی اداکارہ کے حسن وجمال اورایک مغنیہ اورگلوکارہ کی آواز کا بیمہ بھی ہوتاہے، اس بیمہ نے ایسے نام نہاد مفادات کوجنم دیا ہے جنہیں شریعت سرے سے کوئی مفاد ہی تسلیم نہیں کرتی ،اس طرح اس کاروبار میں ’’التَّعَاوُنُ عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘ بھی پایا جاتا ہے، لہٰذاس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال میں اس پہلو کوبھی اٹھایاگیا ہے کہ کاروبار بیمہ میں جورقم جمع ہوتی ہے ، اسے کاروبار میں لگایا جاتا ہے، پھراس کے منافع یانقصانات کو سرمایہ لگانے والوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے، یعنی یہ مضاربت کی ایک قسم ہے ا س کاروبار کومضاربت قراردینا درج ذیل وجوہات کی بنا پر محل نظر ہے:
٭ مضاربت کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ اس میں منافع کی شرح نسبت کی بنیاد پر ہو، مثلاً: ایک آدمی محنت کرتا ہے اور دوسرارقم دیتا ہے تواخراجات کے بعد جومنافع ہوگا وہ ایک خاص شرح کے مطابق تقسیم ہوگا۔ مثلاً: 50% محنت کرنے والا اور50%رقم خرچ کرنے والا اورکوئی شرح مقرر کرلی جاتی ہے لیکن صرف رقم پرمعین منافع عقد مضاربت کے لئے مفسد قراردیا گیا ہے، جیسا کہ بیمہ زندگی میں ہوتا ہے، مثلاً: جمع شدہ رقم پر10%نفع دیا جائے گا، اس لئے دونوں کوایک دوسرے پرقیاس نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ بادیٔ النظر دونوں میں مشابہت پائی جاتی ہے۔
٭ اگر مضاربت میں نقصان ہوتو اس نقصان کوصرف سرمایہ لگانے والابرداشت کرتا ہے، مضاربت کی محنت توضائع ہوتی ہے، اس کے علاوہ مالی نقصان میں وہ شریک نہیں ہوتا جبکہ بیمہ کے کاروبار میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہوتی، اس کاروبار میں سرمایہ کار کو ہر صورت منافع ہی ملتا ہے، نقصان کی صورت میں کمپنی ذمہ دار ہوتی ہے۔
٭ مضاربت میں اگر سرمایہ کارفوت ہوجائے تو ورثاء کو صرف اتنا ہی سرمایہ ملتا ہے جتنااس نے بوقت عقد جمع کرایا تھا جبکہ بیمہ میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ بعض صورتوں میں وہ موت کے بعد بڑی رقم کامالک بن جاتا ہے۔
٭ مضاربت میں سرمایہ کارکوعلم ہوتاہے کہ میری رقم کس قسم کے کاروبار میں صرف ہورہی ہے جبکہ بیمہ میں سرمایہ کارکواس قسم کے معاملات سے بالکل لاتعلق رکھاجاتا ہے۔
٭ مضاربت میں اگر سرمایہ کار مرجائے تواس کی رقم ورثا ء کوملتی ہے جبکہ بیمہ کے کاروبار میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ موت کی صورت میں اس کاحقدار اس کانامزد کردہ ہوتا ہے، شرعی ورثاء اس کے حقدار نہیں ہوتے۔اس میں قانون وراثت کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ہماری بیان کردہ وجوہات کی بنا پر بیمہ کاکاروبار مضاربت سے مشابہت نہیں رکھتا۔
بیمہ کی جائز صورتیں:
بیمہ عملی طورپر جن صورتوں پرمشتمل ہے، اس کی تین اقسام ہیں:
(۱)اجتماعی بیمہ : اسے حکومت یااس کانامزد کردہ کوئی ادارہ چلاتا ہے عام طورپرمحنت مزدوری کرنے والوں کواس میں شامل کیاجاتا ہے۔ مزدوری کرتے وقت جوحوادث یاامراض لاحق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مزدورمعذور ہوجاتے ہیں یاوہ بڑھاپے میں پہنچ کرناکارہ ہوجاتے ہیں توان کابیمہ کیاجاتا ہے۔ اس کے لئے آجر ،اجیر اورحکومت اپنااپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ کاروبار نہیں بلکہ ایک خدمت ہے جسے شریعت نے پسند کیاہے اورایسا کرنے کی ترغیب دی ہے ۔
(۲) باہمی بیمہ :یہ کاروبار امدادباہمی کی انجمنیں چلاتی ہیں جوایسے ارکان سے مل کرتشکیل پاتی ہیں جنہیں ایک ہی طرح کے خطرات کاسامنا ہوتا ہے اگرکسی کوحادثہ پیش آجائے توجمع شدہ رقم سے اس کی تلافی کردی جاتی ہے ۔اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ۔
(۳) مقررہ اقساط والابیمہ :بیمہ کی یہی صورت تھی جسے سابقہ سطور میں زیر بحث لایاگیا ہے ۔ہمارے نزدیک بیمہ کی یہ صورت حرام اور ناجائز ہے کیونکہ اس میں دھوکہ جوا،سود جیسے عناصر شامل ہیں۔ بعض لوگ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ء ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کے ایک فتویٰ کاحوالہ بھی دیتے ہیں کہ انہوں نے اسے جائز لکھا ہے۔ حالانکہ ان کے فتویٰ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے موجودہ بیمہ کاری کاجوازکشید کیاجائے ۔تفصیل کے لئے فتاوٰی ثنائیہ، ص: ۳۷۱،ج ۱کامطالعہ مفید رہے گا ۔اس پرمولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ اورمولاناشرف الدین محدث دہلوی کے توضیحی اشارات بھی ہیں ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب