السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک اورصورت جوبازار میں رائج ہے کہ ایک آدمی ایک ماہ کے ادھار پرمال لیتا ہے، پھرمعینہ مدت میں ادائیگی نہیں کرسکتا توفروخت کار تقاضا کرتا ہے کہ جتنی رقم اس کے ذمے بنتی ہے نئی متوقع مدت کے مطابق اتنی رقم کے مال کانیابل بنوا لے، پھر یہ بل زائد رقم کابنایا جاتا ہے، جبکہ حقیقت میں نہ خریدارکوئی مال لیتا ہے اورنہ ہی فروخت کار کوئی مال دیتا ہے جتنی مدت خریدار بڑھالے اتنانفع فروخت کار بڑھالیتا ہے ۔اس کے متعلق شرعاً کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگرمجلس عقد میں پہلے سے بھاؤ اورادا قیمت کی معیاد طے کرلی گئی تھی توپھر اگرخریدار بروقت رقم مہیا نہ کر سکے تو ازسرنو اضافہ کے ساتھ قیمت کاتعین کرناجائز نہیں ۔جیسا کہ صورت مسئولہ میں وضاحت کی گئی ہے اگرایسا کیاگیا تو واضح طورپرسود ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے ۔فروخت کار کوایسے موقع پر رواداری سے کام لیناچاہیے کہ ادائیگی کی مدت قیمت میں اضافہ کے بغیر بڑھادی جائے ۔حدیث میں اس طرح کے تنگ دست کے ساتھ نرمی اورمزید مہلت دینے پربہت فضیلت آئی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کوصرف اس لئے معاف کردیاتھا کہ وہ مفلوک الحال اورتنگ لوگوں کومزید مہلت دیا کرتا تھا اگر خریدار رقم دیر سے ادا کرنے کاعادی مجرم ہے تواس کے سدباب کے لئے جرمانہ وغیرہ کیاجاسکتا ہے، لیکن ازسرنوسابقہ رقم بڑھاکر نیابل بنانا شرعاً حرام ہے۔ ایسا کرنااللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے مترادف ہے ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب