السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ آجکل کے زمانے میں لڑکا اور لڑکی کی دوستی عام ہے، اور خاص طور پر کالج اور یونیورسٹی میں ساتھ پڑھنے والے لڑکے لڑکیوں کے آپس میں بہت گہرے تعلقات ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ساری حدوں کو عبور کر جاتے ہیں اور آپس میں ان کا سیکس کا رشتہ بھی ہو جاتا ہے، ایسی صورتحال میں جب ایک لڑکے کسی لڑکی کے ساتھ زنا کر چکا ہو تو کیا وہ آپس میں شریعت کے مطابق نکاح کر سکتے ہیں ۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!یہ ایک انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں مخلوط تعلیم کی وجہ سے ایسے شرمناک واقعات ہو رہے ہیں کہ جن کو سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔زنا کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔جس کی اللہ تعالی انتہائی سخت سزا رکھی ہے۔اگر غیر شادی شدہ زنا کرے تو اسے سو کوڑے مارنے اور شادی شدہ کو سنگسار کرنے کی سزا دی جائے گی۔اس جرم کی قباحت وشناعت اورفحاشی انسان تو انسان جانور بھی محسوس کرتے ہیں حدیث شریف میں ہے کہ ایک بندریا نے زنا کر لیا تو دیگر بندروں نے اس پر زنا کی حد لگائی اور سنگسار کر دیا۔ صحیح بخاری میں وارد ہےسیدنا عمرو بن میمون رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے دورجاہلیت میں ایک بندریا جس نے زنا کا ارتکاب کیا تھا کے خلاف بندر اکٹھے ہوتے اورانہیں اس بدریا کورجم کرتے ہوۓ دیکھا اورمیں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کورجم کیا ۔صحیح بخاری المناقب حدیث نمبر(5360)۔ لیکن یہ بات یاد رہے کہ کسی حرام فعل کے وقوع سے کوئی حلال فعل حرام نہیں ہوتا ہے۔ نبی کریم نے فرمایا: «لا يحرم الحرام الحلال»سنن ابن ماجه » كتاب النكاح » باب لا يحرم الحرام الحلالحرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں کا باہمی نکاح ہو جائے گا۔مگر ان کو اللہ سے پکی پکی توبہ کرنی چاہئے،کیونکہ انہوں نے انتہائی قبیح فعل کا ارتکاب کیا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتوی کمیٹیمحدث فتوی |