السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم جناب محمد عبید اللہ خان عفیف .... السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ......خیریت مطلوب
بھائی صاحب پچھلے دنوں ہماری ایک حنفی مکتب فکر کے آدمی سے بحث و تکرار ہو گئی تھی کہ نبی کریم ﷺ کا سایہ تھا۔ لیکن بریلوی آدمی کہنے لگا کہ نبی کریم مکرم ﷺ کا سایہ نہ تھا۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ نبی اکرمﷺ کے سایہ کے ثبوت میں کوئی معقول سی دلیل مل جائے لیکن ہم ناکام رہے۔ امید ہے کہ آپ انشاء اللہ ہمیں قرآن و حدیث کی روشنی میں نبی کریم ﷺ کے سایہ کا ثبوت فراہم فرما دیں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ سے زیادہ دین اسلام کی خدمت لے آمین۔ اخوکم فی اللہ(عبد الباسط عبدالستار مدرسہ جامعہ کمالیہ ۔راجو وال ضلع اوکاڑہ )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ ﷺ آپ اپنی تمام رفعت شان، جلالت قدر ، امام الرسل اور خاتم النبین ہوتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے۔ ابو لہب جیسے بد ترین مشرک کے بھتیجے ، عبدالمطلب کے پوتے خدیجہ اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شوہر نامدار اور زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد بزرگوار تھے ۔ غرضیکہ ہر اعتبار سے آپ خیر البشر اور انسان کامل تھے اورانسان ہونے کے ناطے سے یہ بات بڑی واضح ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں سورہ النحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿أَوَلَم يَرَوا إِلى ما خَلَقَ اللَّهُ مِن شَىءٍ يَتَفَيَّؤُا۟ ظِلـلُهُ عَنِ اليَمينِ وَالشَّمائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُم دخِرونَ ﴿٤٨﴾... سورة النحل
کیا انہوں نے اللہ کی مخلوق میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا ؟کہ اس کے سائے دائیں بائیں جھک کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجود ہیں اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اس کی جلالت شان کا یہ عالم ہے کہ ہر چیز اس کے سامنے جھکی ہوئی ہے۔ جمادات و نباتات ہو یا حیوانات ، یعنی جن، انسان اور ملائکہ سب کا سایہ ہے اور ان کا سایہ دائیں بائیں جھکتا ہے اور صبح و شام اپنے سایہ کے ساتھ اللہ کو سجدہ کرتے ہیں ۔
ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَلِلَّهِ يَسجُدُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ طَوعًا وَكَرهًا وَظِلـلُهُم بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ ﴿١٥﴾... سورة الرعد
اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کی سب مخلوق خوشی اور نا خوشی سجدہ کرتی ہے اور ان کے سائے بھی صبح و شام ۔
ان دونوں آیات مقدسہ سے ثابت ہوا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالیٰ نے جتنی اور جتنی اقسام کی مخلوق پیدا فرمائی ہے ان کا سایہ بھی ہے اور رسول اللہ ﷺ بھی تو بہر حال اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں ۔ لہذا دوسری تمام مخلوق کی طرح لا محالہ آپ کا بھی سایہ تھا ۔ قرآن مجید کی ان آیات مقدسہ کی طرح متعدد احادیث شریفہ میں بھی آپ ﷺ کے سایہ کا ثبوت موجود ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور عین نماز کے دوران آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک اچانک آگے بڑھایا ، پھر جلد ہی پیچھے ہٹا لیا ۔ ہم نے آپ ﷺسے آپ کے اس خلاف معمول نماز میں جدید عمل کے اضافہ کی وجہ دریافت کی تو ہمارے اس سوال کے جواب میں آپ ﷺنے فرمایا کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت لائی گئی ۔ میں نے اس میں بڑے اچھے پھل دیکھے تو میں نے چاہا کہ اس میں سے کوئی گچھا توڑلوں ۔ مگر معاحکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں پیچھے پلٹ گیا ۔ پھر اسی طرح جہنم بھی دکھائی گئی ۔ حتى رأيت ظلى وظلكم میں نے اس کی روشنی میں اپنا اور آپ لوگوں سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔(مستدرك الحاكم ج4ص 456)
حافظ ذہبی ؒنے مستدرک کی تخلیص میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے:
ھذا حدیث صحیح۔ یہ حدیث صحيح ہے۔
آپ غور فرمائیں کہ اس حدیث میں کس قدر وضاحت کے ساتھ آپ ﷺ نے ظلی میرا سایہ وظلکم اور تمہارا سایہ کا بیان فرمایا ہے۔
حضرت صفیہ بنت حیی فرماتی ہیں کہ ہم حج کی سعادت حاصل کر کے واپس آ رہے تھے کہ میری سواری بہک گئی جب کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک اونٹ زائد تھا تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا :افقرى اختك صفية جملك -آپ اپنا اونٹ سواری کے لئے عاریتا صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دے دو ۔تو حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اپنا اونٹ یہود یہ عورت کو کیوں دوں؟اس تلخ بات پر رسول اللہ ﷺسیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض ہو گئے اور تین ماہ تک ان کے گھر بھی تشریف نہ لائے حضرت زینب فرماتی ہیں :
فلما كان شهر ربيع الأول دخل عليها فرأت ظله فقالت: إن هذا لظل رجل وما يدخل علي النبي - صلى الله عليه وسلم - فمن هذا؟ دخل النبي صلى الله عليه وسلم. (مجمع الزوائد ج4 ص 324)
سیدہ زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ جب ناراضگی میں محرم اور صفر گزر گئے اور ربیع الاول کا مہینہ آ پہنچا تو رسول اللہ ﷺمیرے ہاں تشریف لائے ہوا یوں کہ میں نے آپ سے پہلے آپ کا سایہ دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ تو انسانی سایہ ہے جو میرے گھر میں گھس رہا ہے۔
حافظ بیہقی فرماتے ہیں :
«رواه احمد وفيه سمية روى لها ابو داؤد وغيره ولم يضعفها احد وبقية رجاله ثقات» (مجمع الزوائد ج4 ص 324)
کہ اس حدیث میں ایک سمیہ نامی عورت راویہ ہے ابو داؤد وغیرہ نے اس سے روایت کی ہے اور کسی نقاد حدیث نے اس بی بی کو ضعیف نہیں کہا اور باقی تمام راوی ثقہ ہیں۔
اس حدیث سے بھی رسول اللہ ﷺ کا سایہ ثابت ہوتا ہے اور کسی صحیح حدیث میں آپ کے سایہ کی نفی نہیں آتی۔ رہی یہ بات کہ آپ چونکہ نور تھے لہذا نوریوں کا سایہ نہیں ہوتا تو یہ بات بھی ایک مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔کیونکہ فرشتے با لا تفاق نوری مخلوق ہیں اور ان کا سایہ صحیح حدیث سے ثا بت ہے ، جب حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد بزرگوار حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنگ احد میں شہادت پا گئے تو ان کے اہل و عیال ان کے پاس اکٹھے ہو کر رونے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مازالت الملائكة تظله باجنحتها حتى دفعتموها»(بخارى كتاب الجنائز)
جب تک تم لوگ اس کو یہاں سے اٹھا نہیں لیتے اس وقت تک فرشتے اس پر اپنے پروں کا سایہ کرتے رہیں گے۔"
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ نوریوں کا بھی سایہ ہوتا ہے ۔ لہذا رسول اللہ ﷺ کے سایہ کا انکار قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ کا انکار ہے۔
اللہ تعالی ٰ ہم سب کو حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب