سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(175) موجودہ حالات میں بیت المال کی شرعی حیثیت

  • 12146
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5819

سوال

(175) موجودہ حالات میں بیت المال کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

موجودہ حالات میں بیت المال کی شرعی حیثیت کیا ہے کیاکسی گاؤں یاشہر میں بیت المال قائم کیاجاسکتا ہے۔ بیت المال میں کون سی چیز یں جمع ہوسکتی ہیں، نیز اس کے مصارف کون کون سے ہیں کیااس سے مقامی مدرسہ اورمسجد کے اخراجات پورے کئے جاسکتے ہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اسلامی حکومت کافرض ہے کہ وہ بیت المال کاقیام عمل میں لائے ،کیااس کے موارداورمصارف اجتماعیت کاتقاضا کرتے ہیں۔ قرون اولیٰ میں اسلامی حکومتیں اس پرعمل پیراتھیں اگرمسلمان حکومتیں اس فریضہ کوسرانجام نہ دیں توکم ازکم جماعتی سطح پراس کااہتمام ہوناچاہیے ،لیکن انفرادی طورپر اسے قائم کر کے، پھربرائے نام جماعت سازی کرناشرعاً درست نہیں ہے کیونکہ یہ تومسلمانوں کامال باطل ذرائع سے جمع کرنا اورصرف کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بیت المال میں مال جمع ہونے سے اس کی حیثیت نہیں بدل جاتی کہ اسے اپنی مرضی سے استعمال کیا جائے، اس سلسلہ میں جوروایات پیش کی جاتی ہیں کہ لوگ حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کوصد قہ کاگوشت دے دیتے تھے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اسے بطور ہدیہ قبول کرلیتے تھے۔ یہ روایت صحیح ہے لیکن اس کااستعمال برمحل نہیں ہے کیونکہ روایات کے مطابق صدقہ اپنے محل پرپہنچ جاتا تھا پھرجسے صدقہ دیا گیا ہووہ اپنی مرضی سے استعمال کرتا تھا ۔ لیکن بیت المال میںجو مال جمع ہوتا ہے وہ امانت کے طورپرہوتا ہے تاکہ اس کانگران اسے صحیح جگہ پر صرف کرے،وہ اپنی مرضی سے ایسی جگہ خرچ کرنے کامجاز نہیں جواس کامصرف نہ ہو،ہمارے ہاں عام طورپر ’’اپنامال اپنوں پر‘‘ خرچ کرنے کے لئے مندرجہ ذیل حضرات بیت المال قائم کرنے کااہتمام کرتے ہیں :

٭  غیر معیاری اسلامی حکومتیں بیت المال قائم کرلیتی ہیں تاکہ بینکوں کے ذریعے لوگوں کے جمع شدہ سرمایہ سے جبرًا اس سے زکوٰۃ کاٹی جائے، پھر اسے غلط مقاصد کی برآری کے لئے اپنی مرضی سے استعمال کیاجائے۔اس حکومتی بیت المال میں دیگر ناجائز ذرائع کامال جمع ہوتا ہے۔ مدارس کوچاہیے کہ وہ اس طرح کے بیت المال سے کسی قسم کاحکومتی تعاون قبول نہ کریں ۔

٭  بڑی فیکٹریوں کے مالکان یاوسیع کاروبار رکھنے والے مذہبی حضرات اپنے ہاں ایک بیت المال کااہتمام کرتے ہیں جس میں زکوٰۃ وغیرہ کوجمع کردیا جاتا ہے پھرفیکٹری میں قائم کردہ مسجد یامدرسہ کے اخراجات اسی مدسے پورے کئے جاتے ہیں نیز فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کاتعاون بھی اس سے کیاجاتا ہے۔

٭  دینی ذہن رکھنے والے کسی گاؤں یاشہر کے رہائشی ایک ’’اجتماعی ‘‘بیت المال بنالیتے ہیں اس میں زکوٰۃ عشر، فطرانہ اورچرمہائے قربانی سے آمدہ رقم جمع کی جاتی ہے، پھراس سے مسجد کے امام وخطیب کی تنخواہ یالائبریری وغیرہ کے اخراجات کو پورا کیا جاتا ہے۔

٭  بعض دوراندیش حضرات اپنے طورپرایک انفرادی سا بیت المال بنالیتے ہیں، پھرلوگوں سے چندہ مانگ کراسے بھرا جاتا ہے پھراس سے بچیوں کے جہیز کے نام سے استعمال کیا جاتا ہے، نگران ہونے کے حیثیت سے اپنی ضروریات کوبھی اس سے پورا کیا جاتا ہے ۔اکثر مدارس کے مہتمِم حضرات اس میں مبتلا ہیں اس انفرادی بیت المال پراجتماعیت کاٹھپہ لگانے کے لئے کاغذی طورپر جماعت سازی کااہتمام بھی کرلیاجاتاہے۔ ان حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ بیت المال کی حیثیت کاتعین کیاجائے اوراس کے موارد و مصارف کے متعلق کتاب وسنت کی روشنی میں تفصیل سے گفتگوکی جائے ۔لغوی اعتبار سے ہراس گھر کوبیت المال کہا جاتا ہے جوکسی قسم کے مال کی حفاظت کے لئے تیار کیاجائے لیکن اصطلاحی طورپر اس سے مراد وہ ادارہ ہے جو مسلمانوں سے ان کے اجتماعی اموال وصول کرکے ان کے اجتماعی کاموں پرصرف کرنے کاذمہ دارہو ،اسے اسلام کے ابتدائی دور میں بیت مال المسلمین یابیت مال اللہ کہاجاتا تھا آخر کار اس پربیت المال کا اطلاق ہونے لگا۔رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس قسم کے اجتماعی مال کو فورًا خرچ کردیاجاتا تھا ۔حضرت ابوبکرصدیق  رضی اللہ عنہ کے دور میں جزوی طورپر کتب تاریخ میں بیت المال کے قیام کاذکرملتا ہے، باضابطہ طورپر حضرت عمرفاروق  رضی اللہ عنہ نے اس کااہتمام کیااور اس کے مواردومصارف کے لئے ایک محکمہ تشکیل دیا ،اس ترقی یافتہ دور میں بعض اسلامی ممالک کے ہاں وزارت مال ہے۔ بیت المال یابیت التمویل کے نام سے شعبہ قائم کردیاجاتا ہے ۔

اسلامی دور میں بیت المال کومواردومصارف کے اعتبار سے چارحصوں میں تقسیم کیاجاتا تھا۔اگرایک حصہ میں رقم نہ ہوتی تواس کے مصارف ادا کرنے کے لئے دوسرے حصہ سے قرض لیاجاتا ،پھروسائل مہیاہونے پروہ رقم اس حصہ کوواپس کردی جاتی ،ان چارحصوں کی مختصروضاحت حسب ذیل ہے:

1۔  بیت الزکوٰۃ :اس میں ہرقسم کی زکوٰۃ جمع کی جاتی ہے اورزرعی پیداوار کاعشر بھی اس میں داخل کیاجاتا ،قرآن کریم کے بیان کردہ آٹھ مصارف کو ادا کیاجاتا ہے۔چرمہائے قربانی اورفطرانہ وغیرہ بیت المال میں جمع نہیں ہوتا تھا بلکہ اسے فورًا حقداروں تک پہنچادیاجاتا تھا۔

2۔  بیت الاخماس :مال فئی اورغنیمت کاخمس اس مد میں جمع کیا جاتا، اگر کسی کودورجاہلیت کامدفون خزانہ ملتا تواس کاخمس بھی اسی حصہ میں جمع ہوتا، پھراسے قرآن کریم کے بیان کردہ پانچ حقداروں میں تقسیم کیاجاتا تھا ۔

3۔  بیت الضوائع :لوگوں کاگراپڑا مال اس بیت المال میں جمع ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ مال مسروقہ کامالک اگرنہ ملتا تواسے بھی اس کھاتہ میں رکھاجاتا۔ اگراس قسم کے مال کامالک نہ ملتاتواسے ان محتاجوں پرخرچ کیاجاتا جن کا کوئی والی وارث یاسرپرست نہ ہوتا تھا ۔

4۔  بیت مال فئی :اسلامی بیت المال کایہ اہم شعبہ ہوتا تھا۔ اس کاذریعہ مندرجہ ذیل جہات ہوتی تھیں:

٭  ہرقسم کامال فئی اس میں جمع ہوتا جس کی تقریباً نواقسام ہیں ۔

٭  مال غنیمت سے اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خمس۔

٭  سرکاری زمینوں کی پیداوار ۔

٭  اس مسلمان کاترکہ جس کاکوئی وارث نہ ہوتا۔

٭  قدرتی معدنیات ،پٹرول ،تیل اورگیس کی پیداوار کاپانچواں حصہ ۔

٭  مختلف اوقات میں ضرورت رعایاپرلگایا جانے والا ٹیکس۔

 ٭  دوسرے ممالک سے سامان تجارت درآمد یابرآمد کرنے پرعائد کردہ کسٹم ۔

٭  دوران ڈیوٹی سرکاری کارندوں کوعوام سے ملنے والے تحائف وغیرہ اسے دیانت دارحاکم وقت اپنی صوابدید پرمسلمانوں کی عام ضروریات پرخرچ کرنے کامجازہوتا ہے، اس کی تفاصیل کتب فقہ میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔اس مختصر تمہیدی گزارشات کے بعد ہم سوال میں پیش کردہ شقوں کاجائزہ لیتے ہیں ۔ہمارے ہاں قائم شدہ غیر معیاری اسلامی حکومتوں کی غلط پالیسیوں اورغیر معتدل کارکردگی کی بنا  پربیت المال کاقیام جماعتی سطح پر ضروری ہے۔ لیکن یہ بیت المال جہادی تنظیموں جیسا نہیں ہوناچاہیے جس میں غریبوں ،یتیموں، بیواؤں اورناداروں کے مال پرشب خون مارکراسے صوابد یدی فنڈکے طورپر استعمال کیاجائے بلکہ حسب تفصیل بالا ہرمد کواس کے بیان کردہ مصارف میں ہی استعمال کیا جائے۔ اسی طرح انفرادی طورپربیت المال چلانے والوں پرکڑی نظر رکھتے ہوئے ان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے،پھرصوبائی ،ضلعی اورتحصیلی سطح پراس کی شاخیں قائم ہوں ۔شہروں اوردیہاتوں میں بھی ذیلی یونٹ قائم کیے جائیں، البتہ ہر مسجد کاالگ بیت المال ہو، یہ غیراسلامی فکر ہے۔ اس سے اجتناب کرناچاہیے کیونکہ ایساکرنے سے اجتماعی نظم کمزور ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں چونکہ اسلامی قوانین کافقدان ہے، اس لئے ہم اپنے بیت المال میں صرف زکوٰۃ اورعشروغیرہ جمع کرسکتے ہیں۔ چرمہائے قربانی اورفطرانہ وغیرہ کوجمع توکیاجاسکتا ہے لیکن اس سے حاصل ہونے والی رقوم کو فورًا محتاجوں اورضرورت مندوں میں خرچ کردیا جائے ،زکوٰۃ اورعشر کے وہی آٹھ مصارف ہیں جنہیں قرآن کریم نے بیان کیا ہے اسے مقامی مسجد میں یامقامی مدرسہ یامقامی لائبریری پرصرف نہیں کرناچاہیے۔ اس کے لئے الگ فنڈ قائم کیاجائے جس میں مخیر حضرات کے عطیات، عام صدقہ وخیرات وغیرہ جمع کئے جائیں۔ ہاں، اگرکوئی ایسا مدرسہ ہے جہاں مسافرغریب طلبا زیرتعلیم ہیں توان کی جملہ ضروریا ت بیت المال سے پوری کی جاسکتی ہیں اگرطلباء کی ضرورت کے پیش نظر مسجد بنانا ہوتو اس قسم کی مسجد پرزکوٰۃ وعشرکی رقم کولگایا جاسکتا ہے، اسی طرح اگرکسی گاؤں کے رہائشی زکوٰۃ کے حقدارہوں توایسے لوگوں کے لئے زکوٰۃ کی مدسے مسجد بھی بنوائی جاسکتی ہے، البتہ عام مساجد کے اخراجات بیت المال سے ادانہیں کئے جاسکتے ہیں اورنہ ہی اسے مقامی مدرسہ یامقامی لائبریری پرصرف کیاجاسکتا ہے،  اپنے طورپر بیت المال کااہتمام کرکے اس میں زکوٰۃ ،عشر چرمہائے قربانی اورفطرانہ کی رقم جمع کرنااورپھراسے مسجد کی ضروریات پرصرف کرنا یااس سے امام مسجد کی تنخواہ یا مقامی بچوں کی تعلیم کے لئے مدرس کی تنخواہ ادا کرناایک چوردروازہ ہے، جسے بند ہوناچاہیے ۔  [واللہ اعلم بالصواب]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:214

تبصرے