سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

نمازِ جنازہ کے بعد میت پر ہاتھ اٹھاکر دعا مانکنا

  • 12125
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1656

سوال

نمازِ جنازہ کے بعد میت پر ہاتھ اٹھاکر دعا مانکنا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک جنازہ پڑھایا گیا ۔فراغت کے بعد مولوی صاحب نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی  جب  ان سے دلیل کا مطالبہ کیا تو انہوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:‘‘جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھنے سے فارغ ہوجاؤ تو اس کے لئے خلوص نیت سے دعا کرو۔’’انہوں نے مزید کہا کہ اس حدیث میں شرط اور جزا کا بیان ہے کہ او ر ان دونوں میں تغایر ہوتا ہے ،پھر اس میں حرف فا کا استعمال ہو اہے۔جو تعقیب کےلئے استعمال ہوتی ہے،یعنی ایک کام کے بعد دوسرا کام کیا جائے،یعنی نماز جنازہ پڑھنے کے بعد دعا کی جائے ،قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلے کی وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حقیقت یہ ہےکہ بدعت کو ثابت کرنے کےلئے بڑی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ علمی دھونس سے لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا جائے اور پھنسے ہوئے لوگوں کو قابومیں رکھا جائے ۔قارئین کرام نے خود ملاحظہ فرمایا ہے کہ  سوال میں پیش کردہ حدیث سے انتہائی چابکدستی کے ساتھ خود ساختہ عمل کو کشید کیاگیا ہے حالانکہ اس بدعتی عمل کا حدیث کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے،جیسا کہ ہم اس کی وضاحت کرتے ہیں ۔جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں :‘‘ اذا صلیتم علی المیت فاخلصو اله الدعاء’’(ابوداؤد،الجنائز :۳۱۹۹)

‘‘جب میت پر نمازجنازہ پڑھو تو اس کے لئے خلوص نیت سے دعا کرو۔’’ اس سے مراد یہ ہے کہ نماز جنازہ کے دوران جب میت کے لئے دعا کی جائے ،بدعتی حضرات نے اس حدیث کا جو معنی کیا ہے وہ قطعی طورپر مراد نہیں ہے اس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

(الف)جب نماز جنازہ شروع کرنا ہوتو امام کو کہاں کھڑا ہوناچاہیے۔

(ب)نماز جنازہ کےلئے تکبیرات کا بیان۔

(ج)نماز جناز ہ میں قراءت کا بیان۔

(د)میت کے لئے دعا کا بیان،پھر اس عنوان کے تحت حدیث بالاکو بیان کیا ہے۔

(ھ)سب سے آخر میں نمازجنازہ میں پڑھی جانے والی دعاؤں کا ذکر فرمایا ہے۔

عنوان بندی کی اس ترتیب سےپتہ چلتا ہے کہ محدث ابوداؤد ؒ کے نزدیک اس حدیث کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دوران نماز میت کے لئے جو دعا کی جائے وہ کس انداز سے ہونی چاہیے ،وہ یہ ثابت کرنا چاہتےہیں کہ انتہائی اخلاص کے ساتھ میت کےلئے دعا کرنا چاہیے،کیونکہ اس وقت ہم میت کو صرف دعاؤں کا تحفہ ہی دے سکتے ہیں ۔محدث کے انداز میں دوردراز تک اس بات کا اشارہ نہیں ملتا  کہ نماز جنازہ سے فراغت کے بعد وہیں کھڑے کھڑے میت کےلئے دعا کی جائے اور نہ ہی کسی دوسری حدیث میں اس مسئلے کا ذکر ہے۔کسی بھی محدث نے مذکورہ بالا حدیث سے اس خود ساختہ مسئلہ کا استنباط نہیں کیا ہے۔

٭کتب حدیث میں جتنی  احادیث مروی ہیں ان پر خود رسول اللہﷺ  نے یا آپ کے صحابہ کرام ؓ نے کسی نہ  کسی صورت  میں  عمل ضرور کیا ہے۔کیا مذکورہ بدعتی عمل  ،رسول اللہﷺ یا آپ کے صحابہ کرام ؓ سے ثابت کیا جاسکتاہے۔ہم پورے وثو ق سے کہتے ہیں کہ نماز جنازہ سے فراغت کے بعد وہیں کھڑے کھڑے ہاتھ اٹھا کر میت کے لئے دعا کرنے کا یہ عمل رسول اللہﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ سے قطعاًٍ ثابت نہیں ہے۔اگر کسی کے پاس عملی ثبوت ہے تو اسے پیش کریں علمی دھاندلی سےکم علم لوگوں کو مرعوب تو کیا جاسکتا ہے لیکن اس سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔

٭اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حدیث شرط اور جزا پر مشتمل ہے ،یعنی جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھو تو یہ شرط ہے ،اور اس کےلئے خلوص نیت سے دعا کرو یہ جواب شرط یا جزا ہے اور ان دونوں میں تغایر ہے۔نماز جنازہ پڑھنا اور خلوص نیت سے دعا کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن فاتعقیب کا معنی دیتی ہے لیکن ہر مقام پر یہ معنی درست نہیں ہوتا کہ ایک کام سے فراغت کے بعد دوسرا کیا جائے،جیسا درج ذیل حدیث میں تعقیب کا معنی نہیں پایا جاتا ہے۔

(الف)رسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیاتھا‘‘اذا اذانت فترسل واذا اقمت فاحدر’’(ترمذی،الصلوٰۃ:۱۹۶)

‘‘جب تم اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر اور اقامت کہو تو جلدی جلد ی کیا کرو’’اس حدیث میں فاتعقیب کےلئے نہیں ہے کہ اذان کہنے کے بعد ٹھہرنا تکبیر کہنے کے بعد جلدی کرنابلکہ معنی یہ ہے کہ اذان کہتے ہوئے اس کے کلمات ٹھہر ٹھہر کراد اکئے جائیں اور اقامت کہتے وقت اس کے کلمات جلدی جلدی کہے جائیں۔

(ب)رسول اللہﷺ نے سیدنا موسیٰ اشعریؓ سے فرمایا تھا:‘‘اذا صلیتم فاقیمواصفوفکم’’(مسند امام احمد،ص:۳۹۳،ج۴)

‘‘جب نما زپڑھو تو اپنی صفوں کو ضرور سیدھا کیا کرو۔’’ اس حدیث کا قطعاً یہ مفہوم نہیں ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد اپنی صفوں کو سیدھا کیا کرو بلکہ دوران نماز اپنی صفوں کو سیدھا کرنے کا حکم ہے۔مقصد یہ ہے کہ اس مقام پر حرف فاتعقیب کے لئے نہیں ہے ۔واضح رہےکہ حرف فا کے کئی ایک فوائد ہیں،مثلاً:بعض اوقات کلام میں خوبصورتی اور حسن پیدا کرنے کےلئے لائی جاتی ہے اس کےعلاوہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،بعض اوقات عطف یعنی یہ بتانے کے لئے کہ اس کا مابعد باقبل کے حکم میں شامل ہے جب عطف کا معنی دے تو اس کی تین اقسام ہیں :ترتیب ،تعقیب اور سییت ،بعض اوقات حرف فااپنے قبل اور مابعد کے درمیان رابطہ کےلئے آتا ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ فا کا مابعد شرط بننے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو،مذکورہ بالا حدیث میں حرف فا صرف رابطہ کے لئے استعمال ہوا ہے تعقیب وغیرہ اس میں نہیں ہے۔ (تفصیل دیکھئے:مغنی اللبیب،ص:۱۶۱،ج۱)

بہرحال یہ ایک حقیقت ہےکہ بدعت اس وقت جگہ پکڑتی ہے جہاں سنت کا قرار ہوتا ہے۔دیکھئے سنت یہ ہے کہ نماز جنازہ میں میت کے لئے دعائیں کی جائیں ،لیکن وہاں تو ہم جھٹکا کرتے ہیں لیکن جس جگہ پر رسول اللہﷺ سے دعا کرنا ثابت نہیں ہے وہاں دعا کرنے کےلئے ڈیرے ڈال دیتے ہیں ،اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

ج2ص200

محدث فتویٰ

تبصرے