سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) مرضی کی شادی کے لیے دعا مانگنا

  • 12117
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2305

سوال

(159) مرضی کی شادی کے لیے دعا مانگنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مجھے اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن مجید سے انتہائی محبت ہے ۔پانچ وقت نماز باقاعدگی سے ادا کرتی ہوں میری دوست کابھائی حافظ قرآن اورپابند شریعت ہے ۔میں نے اس سے متاثر ہوکررابطہ کیااوردل میں اس کے متعلق محبت محسوس کی، لیکن معاشرتی طورپر اپنے والدین کی مرضی کے بغیر ہم اکٹھے نہیں ہوسکتے ۔ کیامیں ایسے شخص کو  اللہ  سے مانگ سکتی ہوں، اگرچہ یہ پوچھنے والی بات نہیں مگر میں نہیں چاہتی کہ  اللہ  اس بندے کو میرے لئے شربنادے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’انسان برائی کے لئے ایسے ہی دعا کرتا ہے، جیسے بھلائی کے لئے دراصل انسان بڑاجلد باز واقع ہوا ہے۔‘‘    [۱۷/بنی اسرائیل؛۱۱]

آپ چونکہ عالم دین اور علما کی نمایندگی کرتے ہیں اورمیں آپ کی بیٹیوں جیسی ہوں، اس لئے میرے اس سوال کونظر انداز نہ کریں شاید آپ کے جواب سے دوسروں کابھلاہوجائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 قارئین کرام! مجھے یہ سوال موبائل سے ایک پیغام کی صورت میں موصول ہوا ہے جوتقریباً دوصفحات پرمشتمل تھا اوراردو لکھنے کے لئے انگریزی زبان کواستعمال کیاگیا تھا، میں نے اپنے طورپر اسے مختصر کیاہے میں اس پیغام کے حوالہ سے والدین سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی اولاد پرگہری نظر رکھیں، ان کی بظاہر پارسائی اوردینداری پر اکتفا نہ کریں اس پیغام میں بظاہر دینداری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اس سمندر کی طرح ہے جس کی سطح پرخاموشی ہوتی ہے لیکن اس کی تہہ میں طوفان برپاہوتا ہے، آپ اپنی اولاد کی محبت میں اس حدتک گرفتار نہ ہوں کہ آپ کوان کی ہرجائز وناجائز خواہش کوپورا کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑے۔ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی ازواج مطہرات کی خواہش کومدنظر رکھتے ہوئے  اللہ  کی حلال کردہ چیز کو خود پرحرام ٹھہرالیا تھا تو  اللہ  نے پوری ایک سورت نازل فرما کراس کا نوٹس لیا، اس سورت کوبایں الفاظ شروع فرمایا: ’’اے نبی! جس چیز کو اللہ  نے آپ کے لئے حلال کیا آپ اسے حرام کیوں ٹھہراتے ہیں کیا آپ اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہیں ۔‘‘    [۶۶/التحریم :۱]

 اس سورت میں مرکزی پیغام حسب ذیل ہے ’’اے ایمان والو!اپنے آپ کواور اہل وعیال کواس آگ سے بچاؤ جس کاایندھن لوگ اورپتھر ہیں، اس پر تندخو اورسخت گیر فرشتے تعینات ہیں ۔‘‘    [۶۶/التحریم:۶]

بلاشبہ دورحاضر میں موبائل فون ایک مفید ایجاد ہے، لیکن یہ اب ضرورت کی حدود تجاوز کرکے فضولیات میں داخل ہوچکا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال موجودہ ’’پیغام ‘‘ہے، آخر اس بیٹی نے موبائل کے ذریعے اپنی دوست کے بھائی سے رابطہ قائم کیا ،جب کسی وجہ سے ناکامی ہوئی تودینداری کاسہارا اوڑھ لیا گیا ہے، دراصل یہ ہمارا (والدین) کا قصور ہے کہ ہم نے اس اولاد کی محبت میں گرفتار ہوکر بچے کے ہاتھ میں موبائل دے دیا ہے بلکہ کچھ ’’سمجھ دار‘‘بچے ٹیوشن وغیرہ پڑھاکر اس سلسلہ میں خود کفیل ہوچکے ہیں اس کے متعلق وہ والدین کے بھی محتاج نہیں ہیں ۔بہرحال اگروالدین محسوس نہ کریں تومیں عرض کروں گا کہ موجودہ دور میں موبائل ہماری اولاد کوتباہی کے گڑھے کی طرف دھکیل رہاہے اگرآپ اس پرکنٹرول کرنے کی پوزیشن میں ہیں توکرلیں بصورت دیگر اگرپانی سر سے گزر گیا توکچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا ۔آپ اس اختصار شدہ پیغام میں بھی بیٹی کی پراگندہ خیالی اورانتشار فکری ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ اس نے ایک لڑکے کی بظاہر دینداری سے متاثر ہو کر ازخود اس سے رابطہ کیا نامعلوم ’’سلام وپیغام ‘‘کایہ منحوس سلسلہ کتنی دیر تک چلتا رہا۔پھرمعاشرتی طورپر مایوس ہوکر والدین کی رضامندی کالبادہ اوڑھ کر اللہ  سے مانگنے کی فکر دامنگیر ہوئی لیکن پھر اس پر بھی ضمیر مطمئن نہ ہوا کہ جسے  اللہ  سے مانگا جارہاہے وہ ہمارے لئے کہیں ’’شر ‘‘ہی نہ بن جائے آیت کاحوالہ دے کر ہماری طرف رجوع کیا گیا ہے کہ ایسے حالات میں ’’شرع وشریعت‘‘ کیا فتویٰ صادر کرتی ہے ہمارے نزدیک اس کاحل حسب ذیل ہے :

1۔  سب سے پہلے خالی ذہن ہوکر اللہ  سے طلب خیر کیا جائے، یعنی استخارہ کرناچاہیے،  اللہ  تعالیٰ سے بایں طور پر سوال کیاجائے کہ اگر دینی اوردنیاوی اعتبار سے میری مطلوبہ چیز تیرے ہاں بہتر اوراچھی ہے تواسے حاصل کرنامیرے لئے آسان کردے اوراسے میرے مقدر میں کردے اوراگر دینی اوردنیاوی لحاظ سے یہ چیز میرے لئے شر کاپہلورکھتی ہے تواس سے میرادل اچاٹ کردے اوراسے مجھ سے دور کر دے، پھرمیرے لئے جوبہتر ہے اس کے حصول کے لئے راستہ ہموار کردے ، اللہ  کے حضور نہایت عاجزی وانکساری سے دعا کی جائے کہ مطلوبہ شخص اگرمیرے لئے ہرلحاظ سے بہتر ہے تواس کے وسائل پیدا ہوجائیں ۔

2۔  ہماری مشرقی روایت کے مطابق بیٹے اوربیٹیاں ازخود رشتہ طے کرنے کی بجائے ان کے والدین یہ فریضہ ادا کرتے ہیں، اس لئے تمام معا ملات والدین کے ذریعے طے کئے جائیں ۔’’پریشان بیٹی ‘‘ کوچاہیے کہ وہ اپنے والدین کواعتماد میں لے اس کے بعد بات چیت کوآگے بڑھایا جائے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے کہ ’’تم گھروں میں ان کے دروازوں سے ہی آیا کرو۔‘‘  [۲/البقرہ :۱۸۹]

دیواروں کوپھلانگ کرگھر میں داخل ہونا عقل مندی نہیں ہے ۔

3۔  اس امر پرغورکر لینا مناسب ہے اگر مطلوبہ متدین شخص شادی شدہ ہے تواسے ایسی حالت میں قبول کرناہوگا کہ پہلی بیوی کو طلاق دلواکر خودوہاں آباد ہونے کی خواہش غیراسلامی اورناجائزہے حدیث میں اس کی ممانعت ہے۔[صحیح بخاری ،النکاح :۵۱۵۲]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:192

تبصرے