سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(147) فرض نماز کے بعد اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر مخصوص دعا پڑھنا

  • 12105
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1245

سوال

(147) فرض نماز کے بعد اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر مخصوص دعا پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہم نے جریدہ ’’اہلحدیث ‘‘مجریہ ،۲۹اکتوبر ۲۰۰۴شمارہ نمبر ۳۹میں ایک سوال کاجواب دیتے ہوئے لکھا تھا کہ جوحضرات نماز سے فراغت کے بعد اپنے سر پرہاتھ رکھ کر ایک مخصوص دعا پڑھتے ہیں ،اس کاثبوت کتاب وسنت سے نہیں ملتا۔ اس کے متعلق ہمارے ایک دیرینہ عزیز لکھتے ہیں:

’’آپ نے فرض نمازوں کے بعد سر پرہاتھ رکھ کرپڑھی جانے والی دعا کے متعلق بحث فرمائی، ہمارے ہاں عام طورپریہ عمل نہیں کیاجاتا لیکن یکم ستمبر ۲۰۰۳ء کے صحیفۂ اہلحدیث میں اس کو قابل عمل اوراس سے متعلقہ حدیث کو حسن لکھا گیا ہے، مفتی صاحب نے روایت میں مذکورہ عثمان الشمام راوی کے ضعف کومعمولی خیال کرتے ہوئے اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے۔ جب میں نے اصل کتاب میں مراجعت کی تو اس سند میں عثمان الشمام نامی راوی سرے سے موجود ہی نہیں بلکہ وہ اس سے پہلی حدیث کی سند میں ہے۔ مذکورہ فتویٰ میں سنن نسائی کاحوالہ بھی دیا گیا، مجھے نسائی میں بھی یہ حدیث نہیں مل سکی، اس کے متعلق آپ کسی موقعہ پر وضاحت فرما دیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ عمل اور اس سے متعلقہ روایت کی مزید وضاحت کرنے سے پہلے ہم صحیفہ اہلحدیث کے متعلق گزارش کرناچاہتے ہیں کہ یہ پندرہ روز ہ مؤقر جریدہ جماعت غرباء اہل حدیث کا ترجمان ہے یہ جماعت عرصہ دراز سے مسلک اہل حدیث کی نشر اشاعت میں مصروف عمل ہے ۔لیکن اس جماعت کایہ ترجمان نقل روایت کے سلسلہ میں انتہائی متساہل واقع ہوا ہے کیونکہ جس خودساختہ عمل کوصحیح ثابت کرنے کے لئے اس میں جو کوشش کی گئی ہے وہ غلط فہمی پرمبنی ہے ۔ارباب حل وعقد کوفتاویٰ نویسی کے شعبہ پرخصوصی توجہ دینا چاہیے ۔

                اس بناوٹی عمل کومولانا رشیداحمد نے فتاویٰ رشیدیہ میں بغیر کسی حوالہ کے لکھا ہے۔    [ص:۳۶۳]

علامہ ہیثمی رحمہ اللہ  نے اس عمل کوبحوالہ طبرانی اورمسندالبزار دو مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے، پھر اس روایت کے ایک راوی زید العمی کے متعلق لکھا ہے کہ اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ۔    [مجمع الزوائد ،ص:۱۱۰،ج ۱۰]

حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ زیدبن الحواری العمی پانچویں درجے کاکمزورراوی ہے۔    [تقریب ،ص:۱۱۲]

                علامہ البانی رحمہ اللہ  نے ہمیں طبرانی اوسط اورخطیب بغدادی کے حوالہ سے اس روایت کی نشاندہی کی ہے لیکن کثیربن سلیم راوی کی وجہ سے اس کی سند کوانتہائی کمزور لکھا ہے۔ اس کے متعلق امام بخاری اورامام ابوحاتم رحمہما اللہ  کہتے ہیں کہ یہ راوی ’’منکرالحدیث‘‘ ہے۔ امام نسائی اور علامہ ازدی رحمہما اللہ نے اسے متروک لکھا ہے، واضح رہے کہ جس راوی کے متعلق امام بخاری ’’‘منکرالحدیث ‘‘کہہ دیں اس سے روایت لینا بھی جائز نہیں ہے، جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ  نے ابن قطان سے نقل کیا ہے۔ [میزان الاعتدال، ص۵، ج ۱]

                علامہ البانی رحمہ اللہ  مزید لکھتے ہیں کہ مجھے اس روایت کی ایک اور سند ملی ہے جسے محدث ابن السنی نے اپنی کتاب ’’عمل الیوم واللیلۃ‘‘ رقم: ۱۱۰اورمحدث ابونعیم نے اپنی ( تالیف حلیۃ الاولیاء ص:۳۰۱ج ۲)میں بایں سند بیان کیا ہے ۔عن سلامۃ عن زید العمی عن معاویۃ  بن قرۃ عن انس رضی  اللہ  عنہ اس سند میں ایک راوی سلامۃ الطویل ہے، جسے محدثین نے کذاب کہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روایت کایہ طریق خودساختہ اوربناوٹی ہے۔     [سلسلہ الاحادیث الضعیفہ، رقم :۶۶۰]

                سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی نے اس مسئلہ کے متعلق لکھا ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد سر پرہاتھ رکھنا مسنون عمل نہیں ہے بلکہ یہ ایک خودساختہ بدعت ہے۔ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ’’جس نے ہمارے دین میں نیاکام ایجاد کیا جس کا تعلق دین سے نہیں وہ مردود اور ناقابل عمل ہے۔‘‘     [فتاویٰ ہیئۃ کبارالعلماء، ص:۳۵۲،ج ۲]

                جوحضرات فضائل اعمال میں ضعیف روایت کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ محدثین کے ہاں اس کے لئے کچھ شرائط ہیں جن کایہاں وجودنہیں کیونکہ

(الف)  مذکورہ روایت فضیلت عمل سے متعلق نہیں بلکہ ایجاد عمل کے بارے میں ہے جس کاثبوت صحیح احادیث سے نہیں ملتا ہے ۔

(ب)  اس روایت میں معمولی درجے کاضعف نہیں ہے جس کی تلافی کثرت طرق سے ہوسکتی ہو بلکہ اس کاضعف سنگین قسم کاہے ۔

 اس بنا پر ایسے اعمال سے اجتناب کرنا چاہیے جوقرآن وسنت سے ثابت نہیں ہیں ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:185

تبصرے