سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(146) میت کو قبر میں اتارتے وقت سورۃ بقرۃ کی تلاوت کرنا

  • 12104
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1130

سوال

(146) میت کو قبر میں اتارتے وقت سورۃ بقرۃ کی تلاوت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں عام طورپر میت کوقبر میں دفن کرنے کے بعد اس کے سر کی طرف کھڑے ہوکر سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات اوراس کے پاؤں کی طرف سورۂ بقرہ کی آخری آیات پڑھی جاتی ہیں اوراس سلسلہ میں [مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر ۱۷۱۷] کاحوالہ دیا جاتاہے۔ اس حدیث اورعمل کے متعلق وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صاحب مشکوٰۃ نے اس روایت کو امام بیہقی رحمہ اللہ  کی معروف کتاب ’’شعب الایمان ‘‘کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مذکورہ روایت مرفوع نہیں بلکہ حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے موقوف ہے، یعنی رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان نہیں ہے بلکہ حضرت عبد اللہ  بن عمر  رضی اللہ عنہما کاقول اورعمل ہے ۔

شعب الایمان کودیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسے مرفوع روایت کے طورپر بیان کیا ہے۔[شعب الایمان، ص :۳۰۹،ج ۱۶]

لیکن اس روایت میں ایک راوی یحییٰ بن عبد اللہ  البابلتی انتہائی ضعیف ہے۔     [تہذیب، ص: ۲۳۰ج۱۱ ،میزان ص:۳۹۰،ج ۴]

                 چنانچہ اس روایت کوعلامہ ہیثمی نے بیان کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اسے امام طبرانی نے معجم کبیر میں بیان کیا ہے لیکن اس کی سند میں یحییٰ بن عبد اللہ  البابلتی راوی ضعیف ہے۔     [مجمع الزوائد، ص: ۴۴ج، ۳]

                اس کے علاوہ مذکورہ راوی کاشیخ ایوب بن نہیک الحلبی بھی ضعیف ہے ۔تفصیل کے لئے اس حدیث پر محدّث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ کی تعلیق دیکھئے ۔     [مشکوٰۃ مع تعلیق البانی ،ص:۵۳۸،ج ۱]

                 صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما سے موقوفاً بیان ہوئی ہے، جیسا کہ صاحب مشکوٰۃ نے امام بیہقی رحمہ اللہ  کے حوالہ سے لکھا ہے اورانہوں نے خودبھی شعب الایمان میں وضاحت کی ہے، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ  نے اپنی ایک دوسری کتاب میں عبدالرحمن بن علَّاء بن اللجلاج کے حوالہ سے اس عمل کوبیان کرکے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما اس عمل کوپسند کرتے تھے۔ [السنن الکبریٰ، ص:۵۶، ج ۴]

اس کے متعلق علامہ البانی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ موقوف روایت بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس میں عبدالرحمن بن علاَّء اللجلاج راوی مجہول ہے۔     [احکام الجنائز، ص: ۱۹۲، حاشیہ نمبر ۲]

                مجہول راوی کون ہوتا ہے اور اس کی بیان کردہ روایت کاکیا حکم ہے ؟اس کے متعلق کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔ محدثین کرام نے اسباب ضعف کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ راوی کی جہالت بھی حدیث کے ناقابل قبول ہونے کاایک سبب ہے۔ راوی کی جہالت یہ ہے کہ اس کے متعلق متعین طورپر عدالت وجرح کاپتہ نہ چل سکے۔     [نزہتہ النظر ،ص:۴۴]

 اس قسم کی جہالت جس راوی میں پائی جائے اسے مجہول کہتے ہیں اس کی دواقسام حسب ذیل ہیں :

(الف )  مجہول العین: جس کی توثیق نہ کی گئی ہواوراس سے بیان کرنے والا صرف ایک راوی ہو۔

(ب)  مجہول الحال: جس کی توثیق نہ کی گئی ہو اوراس سے دویادو سے زیادہ راوی بیان کریں اسے مستور بھی کہتے ہیں۔ [نزہتہ النظر، ص:۵۰]

                 مجہول راوی کی روایت کے متعلق اکثر محدثین کاموقف ہے کہ اس کی بیان کردہ روایت قابل قبول نہیں ہوگی اورنہ ہی اسے بطوردلیل پیش کیاجاسکتا ہے۔    [فتح المغیث، ص:۳۱۹، ج۱]

اس وضاحت کے بعد ہم مذکورہ موقوف روایت کاجائز ہ لیتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ اس میں بھی ایک راوی عبدالرحمن بن علاَّء مجہول ہے، اس کے متعلق کتب رجال میں کسی قسم کی توثیق بیان نہیں ہوئی اوراس سے بیان کرنے والا صرف ایک شخص مبشر بن اسماعیل الحلبی ہے اس کے علاوہ کوئی دوسراشخص اس سے روایت بیان نہیں کرتا، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ  نے اس عبدالرحمن بن علاَّء سے ایک روایت بیان کی ہے۔     [کتاب الجنائز :۹۷۹]

                 اس روایت کوبیان کرنے والاصرف ایک شاگرد مبشر بن اسماعیل الحلبی ہے امام ترمذی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ میں نے ابوزرعہ رحمہ اللہ  سے عبدالرحمن بن علاَّء کے متعلق دریافت کیاتوآپ نے فرمایا کہ یہ عبدالرحمن بن علاَّء بن اللجلاج ہے۔ انہوں نے صرف اسی طریق سے اس کی پہچان کرائی،علامہ ذہبی رحمہ اللہ  اس کے متعلق کسی قسم کی جرح وتعدیل کاذکر کئے بغیر کہتے ہیں کہ اس سے صرف مبشر بن اسماعیل الحلبی بیان کرتا ہے۔ [میزان الاعتدال، ص:۵۷۹،ج ۲]

                علامہ ہیثمی رحمہ اللہ  نے اس حدیث کوایک اورسند سے بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ اسے طبرانی نے المعجم الکبیر میں بیان کیا اوراس کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔    [مجمع الزوائد، ص:۴۴،ج ۳]

                جب امام طبرانی کی المعجم الکبیر کودیکھا گیا تواس میں بھی عبدالرحمن بن علاَّء بن اللجلاج ہے۔   [ص:۴۴۴ج، ۱۲ رقم: ۱۳۶۱۳]

جس کے متعلق ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وہ مجہول ہے، مزید برآں اس عمل کے متعلق اس کاباپ علاء بن اللجلاج کہتا ہے کہ میں نے رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے وہ اس عمل کوبیان کرتے تھے۔     [مجمع الزوائد ،ص:۴۴،ج ۳]

علامہ ہیثمی رحمہ اللہ  کی شہادت کہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اگر اس مفروضہ کوتسلیم بھی کر لیاجائے توراویوں کی ثقاہت اوربات ہے لیکن صحت حدیث کے لئے سند کامتصل ہوناضروری ہے جواس روایت میں مفقودہے کیونکہ علاء بن اللجلاج ایک تابعی ہے اوروہ بغیر واسطہ کے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل کیونکر بیان کرسکتے ہیں یقینادرمیان میں کوئی راوی محذوف ہے جس کے متعلق ہمیں علم نہیں کہ وہ کس حیثیت کا حامل ہے، محدثین کرام کی اصطلاح میں اس قسم کی روایت مرسل کہلاتی ہے اوراس کے متعلق جمہورمحدثین اوراکثر اصولیین کافیصلہ ہے کہ ناقابل قبول اورمردودہوتی ہے، اس لحاظ سے بھی یہ عمل محل نظر ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:183

تبصرے