السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قنوت کے متعلق وضاحت کریں کہ رکوع سے پہلے ہے یابعد میں، نیز ا س میں ہاتھ اٹھائے جائیں یااٹھائے بغیر بھی قنوت پڑھی جاسکتی ہے جبکہ بخاری شریف میں ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے بھی ہے اوربعد میں بھی کی جاسکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عبادات میں قنوت کی دواقسام ہیں:
1۔ قنوت نازلہ۔ 2۔ قنوت وتر۔ ان دونوں کے لوازمات اورخصوصیات کی تفصیل بیان کی جاتی ہے ۔
1۔ قنوت نازلہ سے مرادجوجنگ ،مصیبت ،وبائی امراض اورغلبہ دشمن کے وقت دوران نماز پڑھی جاتی ہے، ان ہنگامی حالات کے پیش نظر قنوت نازلہ کے مندرجہ ذیل لوازمات ہیں:
٭ اسے رکوع کے بعد پڑھا جاتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں رکوع کے بعد کفار پرلعنت کرتے تھے یہ سلسلہ کافی عرصہ تک جاری رہا۔ [صحیح بخاری، التفسیر: ۴۵۵۹]
٭ دوران جماعت امام اسے بآواز بلند پڑھتا ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ آپ قنوت نازلہ بآواز بلند پڑھا کرتے تھے۔ [صحیح بخاری ،التفسیر :۴۵۶۰]
٭ قنوت نازلہ ہاتھ اٹھاکر پڑھی جاتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ اٹھاکر قنوت نازلہ کیا کرتے تھے۔[مسند امام احمد، ص: ۱۳۷، ج ۳]
٭ مقتدی حضرات قنوت نازلہ کے لئے آمین کہیں۔ [ابوداؤد، الوتر: ۱۴۴۳]
٭ قنوت نازلہ تمام نمازوں میں کی جاسکتی ہے ۔ [مسند امام احمد، ص: ۳۰۱ج ۱]
٭ ہنگامی حالات ختم ہونے پر موقوف کردیا جائے۔ [صحیح مسلم ،المساجد :۱۵۴۲]
2۔ قنوت وتر سے مراد وہ دعا ہے جووتروں کی آخری رکعت میں پڑھی جاتی ہے، اس کی خصوصیات حسب ذیل ہیں :
٭ یہ دعا صرف وتروں میں پڑھی جاتی ہے اگرصرف وتروں سے متعلقہ دعا پڑھناہوتو اسے رکوع سے پہلے پڑھا جائے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر ادا کرتے اور دعا ئے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے۔ [نسائی، قیام اللیل: ۱۷۰۰]
٭ اگروتر کی دعا کو ہنگامی حالات کے پیش نظر قنوت نازلہ کی شکل دے دی جائے تواسے رکوع کے بعد پڑھناچاہیے، جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہما وتروں میں مخالفین اسلام کے خلاف بددعا رکوع کے بعد کرتے تھے۔ [صحیح ابن خزیمہ، ص: ۵۶،۱ج ۲]
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت کے ساتھ قنوت وترمیں ہاتھ اٹھاناثابت نہیں ،البتہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار ملتے ہیں کہ وہ وتروں میں دعا کرتے وقت ہاتھ اٹھایاکرتے تھے۔ [مختصر قیام اللیل ،ص۲۳۰طبع ہند]
٭ امام کابآواز بلند قنوت وتر پڑھنا اورمقتدی حضرات کاآمین کہنابھی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، البتہ قنوت نازلہ پر قیاس کیاجائے توگنجائش نکل سکتی ہے، ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں توسیع ہے۔ قنوت وتر ہاتھ اٹھاکر یاہاتھ اٹھائے بغیر دونوں طرح کی جاسکتی ہے، کسی ایک طریقے پرتشدد اوردوام درست نہیں ہے، البتہ وتروں میں تکبیرتحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھانا، پھر انہیں باندھ لینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ [و اللہ اعلم ]
سوال کے آخر میں صحیح بخاری کے حوالہ سے بیان کیاگیا ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے بھی ہے اوررکوع کے بعد بھی کی جاسکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اما م بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات انتہائی خاموش اوربہت ٹھوس ہوا کرتے ہیں ۔
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابواب وتر میں ایک عنوان بایں الفاظ بیان کیا ہے ’’رکوع سے پہلے اوراس سے بعد قنوت کرنا۔‘‘ پھر محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں قنوت کی تھی؟ فرمایا: ہاں! پھرسوال ہوا کہ قنوت رکوع سے پہلے تھی، جواب دیا رکوع کے بعد تھوڑا عرصہ کی تھی۔ [صحیح بخاری، الوتر: ۱۰۰۱]
پھراس کی مزید وضاحت کے لئے عاصم الاحول کی روایت پیش فرمائی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نماز میں قنوت کے متعلق دریافت کیاتوآپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے ہے، پھرمیں نے عرض کیا کہ فلاں شخص آپ سے بیان کرتا ہے کہ قنوت رکوع کے بعد ہے آپ نے جواب کے طورپر فرمایا غلط کہتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد صرف ایک ماہ قنوت فرمائی ۔یہ اس وقت ہوا جب مشرکین نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے ستر قراء کوشہید کر دیا توآپ نے رکوع کے بعد صرف ایک ماہ ان پر بددعا فرمائی۔ [صحیح بخاری، الوتر :۱۰۰۲]
اس روایت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہنگامی حالات کے پیش نظر جودعا کی جائے وہ رکوع کے بعد ہے اورحضرت انس رضی اللہ عنہ نے جس قنوت کورکوع سے پہلے بیان کیا ہے وہ ہنگامی حالات کے پیش نظر نہیں بلکہ وہ قنوت وتر ہے کیونکہ جو قنوت ہنگامی حالات کے پیش نظر نہیں بلکہ عام حالات میں کی جاتی ہے وہ صرف قنوت وتر ہے، تفصیلی روایت سے امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت ہوتی ہے کہ وہ قنوت وتر رکوع سے پہلے کرنے کے قائل ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب