السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کتاب وسنت کے حوالے سے مندرجہ ذیل سوالات کے جواب درکار ہیں:
٭ نماز تسبیح باجماعت ادا کرنی چاہیے یاانفرادی طور پر وضاحت کریں۔
٭ وتروں میں دعائے قنوت ہاتھ اٹھا کر مانگیں یاہاتھ باند ھ کر یاچھوڑ کر تفصیل سے لکھیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کونما زتسبیح پڑھنے کی ترغیب دلائی کہ اسے آپ روزانہ ادا کریں یاہفتہ میں ایک مرتبہ اگرایسا ممکن نہ ہو تو مہینہ میں ایک مرتبہ یاسال میں ایک بار ،اگرایسا نہ کرسکتے ہوں توکم از کم زندگی میں ایک مرتبہ ضرور پڑھیں۔ [ابوداؤد، التطوع: ۱۲۹۷]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث کثرت طرق کی بنا پر حسن درجہ کی ہے لیکن اس نماز کوباجماعت ادا کرنے کاکوئی ثبوت نہیں ہے، اس لئے نماز تسبیح پڑھنے والے کوچاہیے کہ پہلے اس کا طریقہ سیکھے، پھرتنہائی میں اسے اکیلا پڑھے۔ ہمارے ہاں یہ رویہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ فرض نمازوں پرتوجہ نہیں دی جاتی ہے، البتہ نماز تسبیح ادا کرنے کے لئے بے قراری اوربے تابی کی کیفیت رہتی ہے۔ فرض نمازوں کی پابندی کرنے والوں کے لئے نماز تسبیح بہت فائدہ مند ہے۔
٭ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے متعلق کوئی مرفوع روایت کتب حدیث میں مروی نہیں ہے، البتہ حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے نماز وتر میں قنوت کے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے، جیسا کہ امام مروزی رحمہ اللہ نے قیام اللیل میں ذکر کیا ہے۔ [مختصر قیام اللیل ،ص: ۲۳۰]
اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی بعض آثار ملتے ہیں۔ اس سلسلہ میں دو جلیل القدر ائمۂ حدیث کامناظرہ بھی قابل ملاحظہ ہے۔ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ کابیان ہے کہ مجھے ایک مرتبہ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آپ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھاتے ہیں؟ میں نے کہا: نہیں، پھر میں نے سوال کیا کہ آپ اٹھاتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، میں تو اٹھاتا ہوں۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اس کی دلیل پوچھی توآپ نے فرمایا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ وہ یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قنوت وتر میں ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ اس پرامام ابوحاتم نے کہا اس روایت کونقل کرنے والے لیث بن ابی سلیم ہیں۔ (جومحدثین کے ہاں ثقہ نہیں ہیں )امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کہنے لگے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کاعمل بھی قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کاہے امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اس کاجواب دیا کہ اس میں ایک راوی ابن لہیعہ ہے جوقابل اعتبار نہیں۔ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کہنے لگے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کاعمل ہمارے لئے حجت ہے امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرمانے لگے: اسے توعوف بن ابی جمیلہ نے بیا ن کیا ہے۔ جو محدثین کے ہاں ناقابل اعتبار ہے امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے فرمایا: تمہارے پاس ہاتھ نہ اٹھانے کی کیا دلیل ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے فرمایاحضرت انس رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے علاوہ دیگر کسی مقام پرہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ یہ جواب سن کرامام ابوزرعہ رحمہ اللہ خاموش ہوگئے ۔ [تاریخ بغداد، ص:۷۶،ج ۲]
ہمارے نزدیک اس مسئلہ میں توسیع ہے ہاتھ اٹھاکر یا ہاتھ اٹھائے بغیر دونوں طرح سے دعا مانگی جاسکتی ہے، البتہ تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھانا، پھرباندھ لینا محل نظر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب