سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(141) وتر کے نفل پڑھنا اور وتروں میں دعا نہ پڑھنا

  • 12096
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2374

سوال

(141) وتر کے نفل پڑھنا اور وتروں میں دعا نہ پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی نے نماز عشاء کے بعدوتر ادا نہیں کئے، اس لئے کہ وہ نیند سے بیدار ہوکرپڑھناچاہتا تھا۔ جب پچھلی رات بیدار ہواتو فجر کی اذان ہوچکی تھی یاجب نفل پڑھنا شروع کئے تو فجر کی اذان ہونے لگی ،اب کیانفل پڑھ کروتر پڑھنے چاہییں یا صرف نفل پڑھنے پراکتفا کیاجائے، نیز وتر وں میں اگر دعا نہ پڑھی جائے توکیا وتر ہوجائیں گے۔ ہمارے ہاں وتر پڑھنے کے بعد بیٹھ کردونفل پڑھے جاتے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیاہے، جبکہ وتررات کی آخری نماز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس ایک سوال میں کئی سوالات ہیں،ان کے جوابات سے پہلے اس بات کی وضاحت کرناضروری ہے۔ کہ نماز وترتہجد کاحصہ ہے نماز عشاء کاجز نہیں کہ اس کے ساتھ ہی پڑھناضروری ہو،نماز وتر کاوقت نماز عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے، جیسا کہ حدیث میں اس کے وقت کی تعیین کی گئی ہے۔   [ابوداؤد، الصلوٰۃ: ۱۴۱۸]

رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد گرامی ہے کہ’’ نماز وتر صبح سے پہلے پڑھو ۔‘‘     [صحیح مسلم ،صلوٰۃ المسافرین :۷۵۴]

                جس انسان کویہ اندیشہ ہوکہ وہ رات کے آخری اوقات میں بیدار نہیں ہوسکے گا، اسے چاہیے کہ وہ وترپڑھ کر سوئے ،اگر یہ اندیشہ نہ ہوتورات کے آخری حصہ میں وتر پڑھنا افضل ہیں ۔چنانچہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کافرمان ہے :’’تم میں سے جسے یہ خدشہ ہوکہ وہ رات کے آخری حصہ میں نہیں اٹھ سکے گا تووہ وتر پڑھ لے، پھر سوجائے۔‘‘     [مسند امام احمد، ص: ۳۱۵،ج ۲]

                حضرت ابوہریرہ، حضرت سلمان اورحضرت ابودرداء رضی اللہ عنہم کو آپ نے وصیت کی تھی کہ عشاء کے بعد سونے سے پہلے وتر پڑھ لیاکریں ،اب ترتیب وارجوابات ملاخطہ فرمائیں ۔

٭  جو شخص نمازِفجر سے اٹھا اوراس نے نفل شروع کردیے اوراس دوران اذان ہوگئی توان نوافل کووتر بنالے اورانہیں مکمل کرلے اوراگرصبح کی اذان کے بعد بیدارہوتووتر اداکرنے کی دوصورتیں ہیں:

1۔  وہ جب بھی بیدار ہو، اسی وقت وتر ادا کرے، خواہ وہ اذان کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’جو شخص وتر کے وقت سویا رہے یا اسے وتر پڑھنابھول جائیں توجب اسے یاد آئے یاجب وہ بیدار ہوتواسی وقت پڑھ لے۔‘‘ [جامع ترمذی ،الصلوٰۃ : ۴۶۵]

ترمذی کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ’’جب کوئی نماز وترسے سورہے ،جب صبح کرے تو پڑھ لے ۔‘‘   [حدیث نمبر۴۶۹]

2۔   فوت شدہ وتروں کواد اکرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ دن چڑھے بارہ رکعت پڑھ لے ،اس سے وتروں کی تلافی ہوجائے گی کیونکہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جب نیند یاکوئی تکلیف قیام اللیل سے رکاوٹ بن جاتی تو آپ دن میں بارہ رکعت ادا فرما لیتے۔     [سنن دارمی، الصلوٰۃ: ۴۳۹]

٭  وترمیں دعائے قنوت کے محل کے تعیّن میں اختلاف ہے احناف رکوع سے پہلے دعاکرنے کے قائل ہیں، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ  اورامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے رکوع کے بعددعا کرنے کاموقف اختیار کیا ہے۔ ہمارارجحان یہ ہے کہ اگرقنوت وتر کوقنوت نازلہ کی شکل نہیں دی گئی، یعنی اس میں دیگر ہنگامی ادعیہ شامل نہیں کی گئی ہیں۔ توقنوت رکوع سے پہلے کرناچاہیے، جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ ’’رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  تین وتر پڑھتے اوردعائے قنوت رکوع سے پہلے پڑھتے تھے ۔‘‘ [سنن النسائی ،قیام اللیل :۱۷۰۰]

                اس روایت کے دومزید طریق ہیں ان میں بھی رکوع سے پہلے قنوت کرنے کی صراحت ہے۔

1۔  طریق فطر بن خلیفہ ۔     [دارقطنی، ص: ۳۱،ج ۲]                    2۔  طریق مسعر بن کدام ۔    [بیہقی، ص: ۴۱،ج۳]

                نیز حضر ت حسن  رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ مجھے رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعائے قنوت سکھائی کہ میں وتر اداکرتے وقت جب قراء ت سے فارغ ہوجاؤں تواسے پڑھوں۔     [کتاب التوحید لابن مندہ، ص: ۹۱،ج ۲]

                اس کے علاوہ حضرت ابن عمر ،حضرت عبد اللہ  بن مسعود ،حضرت عبد اللہ  بن عباس اورحضرت انس رضی اللہ عنہم کامعمول کتب حدیث میں یہی منقول ہے کہ وہ رکوع سے پہلے قنوت کیا کرتے تھے۔ ہاں، اگروتروں کی دعا کوہنگامی حالات کے پیش نظرقنوت نازلہ کی شکل دے دی جائے تورکوع کے بعد دعا کی جائے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے جب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کونماز تراویح باجماعت پڑھانے کے لئے مقرر کیا تووہ ہنگامی حالت کے پیش نظر مخالفین اسلام کے خلاف بددعا ،رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  پردرودو سلام اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے دعا کرنے کے بعد ’’ اللہ  اکبر‘‘ کہتے اورسجدہ میں چلے جاتے ۔    [صحیح ابن خزیمہ، ص: ۱۵۶،ج ۲]

٭  وتروں میں دعائے قنوت پڑھنا مسنون ہے اگر رہ جائے تووترہو جاتے ہیں انہیں دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، جیسا کہ حضرت ابن عمر،حضرت ابوہریرہ اورحضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہم ، امام مالک رحمہ اللہ  سے ایسی روایات ملتی ہیں،کہ وہ وتروں میں دعائے قنوت نہیں کرتے تھے۔     [مختصر قیام اللیل ،ص: ۲۲۷]

                 حضرت امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قنوت چھوڑدینا ایک سنت کاترک ہے ،جس پر سجد ہ سہو ضروری نہیں ہے، البتہ حضرت حسن بصری ،ابن ابی لیلیٰ ،حماد اورسفیان  رحمہم اللہ  فرماتے ہیں کہ اگروتر وں میں دعائے قنوت رہ جائے تو سجدہ سہوسے تلافی ہوسکے گی ۔     [مختصر قیام اللیل ،ص: ۲۴۲]

                صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل کے پیش نظر ہمار ایہ رجحان ہے کہ وتروں میں قنوت کرنامستحب اوربہتر ہے اگر رہ جائے تووتر ہوجائیں گے سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

٭  وتروں کے بعد دورکعت پڑھنا مسنون ہے کیونکہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کاعمل مبارک ہے۔ حضرت ام سلمہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   وتر کے بعد دورکعتیں پڑھاکرتے تھے ۔     [مسند امام احمد ،ص: ۹۸،ج۶]

                حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کی روایات میں صراحت ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  وتر کے بعد دورکعت بیٹھ کراداکرتے اورجب رکوع کرناہوتا توکھڑے ہوجاتے ۔     [ابن ماجہ ،الصلوٰۃ : ۱۱۹۶]

رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے امت کو ان کے ادا کرنے کاحکم بھی دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’یہ سفر گرانی اور مشقت کاباعث ہے، اس لئے وتر کے بعد دورکعت پڑھ لی جائیں، اگرصبح کی نماز تہجد کے لئے بیدار ہوجائے توبہتر بصورت دیگر اس کے لئے یہی دورکعات کافی ہیں۔‘‘     [صحیح ابن خزیمہ، ص: ۱۵۹،ج۲]

اگرچہ بعض روایات میں وتر کورات کی آخری نماز قرار دیاگیا ہے، جیسا کہ حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہما  کابیان ہے کہ رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’وتر کوتم اپنی رات کی آخری نمازبناؤ۔‘‘     [صحیح بخاری، الوتر :۹۹۸]

                 لیکن مندرجہ بالا آپ کاعمل مبارک اورحکم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حکم محض استحباب کے لئے ہے وجوب کے لیے نہیں۔اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ وتر کے بعد دورکعت پڑھنا امت کے لئے استحباب کے درجہ میں ہے، البتہ انہیں بیٹھ کرادا کرنا رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاخاصہ ہے، جیساکہ حضرت عبد اللہ  بن عمرو  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہیں رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس حدیث کاعلم ہوا کہ بیٹھ کرنماز پڑھنا کھڑے ہوکر نما ز پڑھنے کی نسبت نصف ثواب ملتا ہے، چنانچہ وہ ایک مرتبہ رسول  اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے توآپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے، اس پر انہوں نے تعجب کیاہے اورعرض کیا کہ مجھے توآپ کی فلاں بات پہنچی ہے اس پر آپ نے فرمایا :’’میں آپ کی طرح نہیں ہوں۔‘‘    [صحیح مسلم ،المسافرین :۷۳۵]

اس سے معلوم ہوا کہ آپ کوبیٹھ کرنماز پڑھنے سے بھی پوراثواب ملتا ہے، اس کے باوجود آپ صرف قراء ت بیٹھ کرکرتے تھے رکوع کرنے سے پہلے کھڑے ہوجاتے تھے جوحضرات وتروں کے بعد مکمل دورکعت بیٹھ کراداکرتے ہیں ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

 

جلد:2 صفحہ:176

تبصرے