سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(400) روزہ نہ رکھنے کا عذر ختم ہونے پر کھانا پینا کیسا ہے؟

  • 1202
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1454

سوال

(400) روزہ نہ رکھنے کا عذر ختم ہونے پر کھانا پینا کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب کوئی انسان عذر کی وجہ سے روزہ چھوڑ دے اور پھر دن کو کسی وقت عذر ختم ہو جائے تو کیا دن کے باقی حصے میں وہ کھانے پینے سے رکارہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اس کے لیے کھانے پینے سے رکنا لازم نہیں ہے کیونکہ اس شخص نے شریعت کی دلیل کی بنیاد پر روزہ چھوڑا تھا۔ اس بنیادپر شریعت نے اس شخص کے لیے دوائی کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے جو دوائی کھانے کے لیے مجبور ہو، لہٰذا جب وہ دوائی کھائے گا تو اس کا روزہ جاتا رہے گا، پھر اس شخص کے حق میں اس دن کی حرمت ثابت نہیں ہے کیونکہ اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، البتہ اس کے لیے قضا لازم ہوگی۔ اب اسے پابند کرنا کہ وہ کھانے پینے سے باز رہے شرعاً درست نہیں ہے۔ اس کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی یہ دیکھے کہ ایک شخص پانی میں غرق ہو رہا ہے اور وہ کہے کہ اگر میں پانی پی لوں تو اسے غرق ہونے سے بچا سکتا ہوں اور اگر پانی نہ پیوں تو میرے لیے اسے بچانا ممکن نہیں تو وہ پانی پی لے اور اسے بچا لے اور باقی سارا دن بھی کھا ئے پیئے کیونکہ اس شخص کے حق میں آج کی حرمت نہیں ہے، اس لیے کہ اس نے بتقا ضئے شریعت آج روزہ توڑاہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مریض ہو تو کیا ہم اس مریض سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تجھے جب بھوک لگے توتو کھانا کھا اور پیاس لگے توتو پانی نہ پی؟ یہ ہم اس سے نہیں کہہ سکتے کیونکہ مریض کے لیے روزہ چھوڑ دینا جائز قرار دیا گیا ہے، تو ہر وہ شخص جو دلیل شرعی کے ساتھ رمضان کا روزہ چھوڑے، اس کے لیے کھانے پینے سے باز رہنا لازم نہیں اور اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو اس کا حکم بھی برعکس ہوگا، یعنی جو شخص بغیر عذر کے روزہ چھوڑ دے، تو اس کے لیے کھانے پینے سے باز رہنا لازم ہے کیونکہ اس کے لیے روزہ چھوڑنا حلال نہیں تھا۔ اس نے شریعت کی اجازت کے بغیر آج کے دن کی بے حرمتی کی ہے، لہٰذا اس کے لیے لازم ہے کہ دن کے باقی حصے میں نہ کھائے پیے اور اس کے لیے ادائے قضا بھی لازم ہوگی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ373

محدث فتویٰ

تبصرے