سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(44) ’دوران حمل خون کا جاری ہونا‘ شرعاً حکم

  • 11998
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 7447

سوال

(44) ’دوران حمل خون کا جاری ہونا‘ شرعاً حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری ہمشیرہ کی شادی کوچار سال ہوچکے ہیں اسے بعض اوقات دوران حمل خون جاری ہوجاتا ہے اورحمل بھی برقرار رہتا ہے، ایسے خون کے متعلق شرعاًکیا حکم ہے؟ کیا اس دوران نماز، روزہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں، کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حیض وحمل کے اعتبار سے عورتوں کوعام طور پرتین اقسام دیکھنے میں آتی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:

1۔  اکثرعورتیں ایسی ہیں کہ انہیں استقرارحمل کے بعد حیض آنابند ہوجاتا ہے، وہ عورتیں صرف حیض کے بند ہونے سے حمل کوپہچانتی ہیں۔  اللہ  تعالیٰ کایہ عجیب نظام ہے کہ جب حمل کی وجہ سے خون حیض بندہوجاتا ہے توبچہ کے لئے ماں کے پیٹ میں وہ غذاکے کام آتا ہے جوخون بچے کی غذا سے زائد ہوتا ہے ۔وہ رحم میں جمع ہوتا رہتا ہے، ولادت کے وقت وہی جمع شدہ خون نفاس کی صور ت میں باہر نکلتا ہے ۔

2۔  بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں حمل کے دوران اپنی عادت کے مطابق خون آتا ہے جس طرح حمل سے پہلے ہوتا ہے، اس خون کاحکم حیض کاہے کیونکہ یہ جاری رہتا ہے اورحمل کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتا ہے اوریہ خون ہراس چیز سے روکتا ہے جس سے حیض روکتاہے اورہراس چیز کوواجب کرتا ہے جسے حیض واجب کرتا ہے دراصل بچے کی غذاسے فالتوخون رحم میں جمع نہیں ہوتا بلکہ وہ رحم کے ذریعے حسب عادت جاری رہتا ہے ۔

3۔  بعض عورتیں ایسی بھی ہیں جنہیں سرے سے حیض آتا ہی نہیں ہے اورانہیں حمل بھی ٹھہرتا ہے وہ اپنے حمل کواندرونی یابیرونی علامات سے پہچان لیتی ہیں، اس قسم کی عورتیں بہت کم ہیں لیکن ہوتی ضرورہیں۔ صورت مسئولہ کی نوعیت معلوم کرنے کے لئے دوران حمل آنے والے خون کی دواقسام ہیں:

 (الف)  اسے حیض کاخون شمار کیاجائے جوعورت کو اس طرح آرہاہے جس طرح حمل سے پہلے تھا۔ اس کامعنی یہ ہے کہ عورت اس دوران نماز روزہ ادانہیں کرے گی اوراس سے فراغت کے بعد غسل کرکے فوت شدہ روزوں کی قضادیناہوگی ،البتہ اس دوران رہ جانے والی نمازوں کواداکرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔

(ب)  وہ خون جوعادت سے ہٹ کرحاملہ کواچانک آتا ہے اور یہ کسی حادثہ یاکسی چیز سے گرنے کے سبب ہوتا ہے، یہ خون حیض کا نہیں بلکہ رگ کاخون ہے اوریہ نمازروزہ سے رکاوٹ نہیں بنتا، پھر اگرحادثہ کی وجہ سے حمل ساقط ہوجائے تواس کی مزید دواقسام ہیں:

٭  اگر اس حمل میں انسانی تخلیق ظاہر ہوچکی ہے تواس کے بعد آنے والاخون نفاس کاہے اورعورت اس میں نمازروزہ ترک کردے گی کیونکہ انسانی تخلیق کاضابطہ یہ ہے کہ چارماہ بعد جنین میں روح ڈالی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’بے شک تم میں سے ہر ایک کا مادہ اس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن جمع کیاجاتا ہے، پھر چالیس دن تک ایک لوتھڑابنتا ہے، پھر چالیس دن تک گوشت کاٹکڑا بنتا ہے، پھر فرشتے کے ذریعے اس میں روح پھونک دی جاتی ہے اور اس کارزق،اجل ،عمل اوراچھا یابراہونالکھ دیا جاتاہے ۔‘‘     [صحیح بخاری، التوحید:۷۴۵۴]

اگر چار ماہ سے قبل، یعنی اس میں روح پڑنے سے پہلے اسقاط ہوجائے اوراس میں انسانی تخلیق نہیں ہوتی تووہ نفاس کاخون نہیں ہے، بلکہ بیماری کاہے جو نماز روزہ اور دوسری چیزوں سے رکاوٹ کاباعث نہیں ہے۔ سائلہ کوچاہیے کہ وہ تفصیل بالاکے مطابق عمل کرے۔     [و اللہ  اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2 صفحہ:87

تبصرے