السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وضو کے بعد دورکعت اداکرنے کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں ،بعض لوگ عصر کے بعد بھی وضو کی دورکعت پڑھتے ہیں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں اس الجھن کودور کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وضو کے بعد دورکعت پڑھنا احادیث سے ثابت ہے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فضیلت بیان فرمائی ہے ۔چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ مکمل وضو کیا، پھرفرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواسی طرح وضو کرتے دیکھاتھا اورآپ نے فرمایا تھا: ’’جس شخص نے میرے اس وضو کی طرح وضو کیا، پھر اس نے دورکعت اداکیں کہ پڑھتے وقت دل میں دنیاوی خیالات پیدانہیں ہونے دیے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ تمام گناہ معاف فرمادے گا ۔‘‘ [صحیح بخاری :۱۶۴]
اسی طرح حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جومسلمان اچھی طرح وضو کرے، پھر کھڑا ہوکر مکمل توجہ کے ساتھ دورکعت پڑھے تواس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔‘‘ [صحیح مسلم :۲۳۴]
صبح کی نماز کے بعد ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے بلال! تم کس عمل کی وجہ سے جنت میں میرے آگے آگے تھے ؟میں جب بھی جنت میں داخل ہواتو میں نے اپنے آگے تمہارے چلنے کی آواز ضرورسنی اورآج رات بھی اسی طرح ہوا کہ میں جنت میں داخل ہواتو اپنے آگے تیرے چلنے کی آواز سنی ،انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میں نے جب بھی اذان کہی ،اس کے بعد دورکعت ضرور ادا کیں اورجب بھی میرا وضو ٹوٹا تومیں نے دوبارہ وضو کیا تودورکعت اداکیں ، میں نے یہ ذہن بنالیا ہے کہ دورکعت پڑھنا اللہ تعالیٰ کامجھ پر حق ہے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہی دورکعت کے پڑھنے کی وجہ سے تم جنت میں میرے آگے آگے تھے۔‘‘ [مسند امام احمد ،ص: ۳۶۰،ج۵]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وضو کے بعد دورکعت ہر وقت ادا کی جاسکتی ہیں، اس میں ممنوع اوقات کی بھی پابندی نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا جب بھی وضو ٹوٹتا تو وہ ہر مرتبہ وضو کرتے اور وضو کے بعد نماز پڑھتے، خواہ کوئی بھی وقت ہوتا۔ [فتح الباری، ص۳۵، ج۳]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کابھی یہی موقف ہے کہ سنت وضوہروقت پڑھی جاسکتی ہیں، اگرچہ ممنوع اوقات میں سے کوئی وقت کیوں نہ ہو۔ [الاختیارات، ص:۱۰۱]
واضح رہے کہ مطلق نوافل ممنوعہ اوقات میں ادا کرنامنع ہیں، البتہ جن نوافل کاکوئی سبب ہوجنہیں فقہاء کی اصطلاح میں’’صلوٰۃ سببی‘‘کہتے ہیں ،انہیں ہروقت اداکیاجاسکتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کے حوالہ سے اس کی تفصیل لکھی ہے۔ [فتح الباری، ص: ۳۵،ج۳]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب