سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(9) قرآنی و غیر قرآنی تعویذ کے متعلق شرعی حکم

  • 11926
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1776

سوال

(9) قرآنی و غیر قرآنی تعویذ کے متعلق شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآنی و غیر قرآنی تعویذ کے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت اسلامیہ نے روحانی اورجسمانی مصائب وآلام سے شفایابی کے لیے دم کرنے اور دم کرانے کوجائز قرار دیا ہے اوراس کی ترغیب دی ہے۔ اس کے متعلق بہت واضح اورصحیح احادیث منقول ہیں کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم خود بھی دم کرتے تھے اوراپنے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کوبھی اس کی تلقین کرتے تھے، تعویذات لکھ کر لٹکانے یااسے دھوکر پینے کے متعلق رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  سے کوئی اجازت قولی یاعملی منقول نہیں ہے، شرکیہ الفاظ یامجہول المعنی کوبطورتعویذ استعمال کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے، البتہ قرآنی آیات لکھ کراستعمال کرنے کے متعلق ہمارے اسلاف میں اختلاف رہاہے۔ لیکن ہمارے اس پر فتن دور میں تواس کے متعلق بہت افراط وتفریط سے کام لیاجاتاہے ،بعض قائلین اورفاعلین تواسے کاروبار کے طور پراپنائے ہوئے ہیں اوراس کاروبار کوجائز قرار دینے کے لیے قرآن وحدیث سے دلائل بھی کشید کرتے ہیں، جبکہ اس کے مانعین ومتشدّدین قرآنی تعویذات کوبھی شرکیہ قرار دے کر انتہاپسندی کاثبوت دیتے ہیں ۔ہمارے نزدیک ایسے حالات میں دم سے بڑ ھ کر اورکوئی نسخۂ کیمیا نہیں ہے کیونکہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  خودایسا کرتے تھے اگرکوئی خوددم نہ کرسکتاہوتوکسی سے دم کرایا جاسکتاہے ۔اگر دم کرانے کے بھی مواقع میسرنہ ہوں توقرآنی تعویذات کوعمل میں لایاجاسکتا ہے بشرطیکہ اسے کاروبار یامعمول نہ بنایا جائے ،چونکہ ضرورت مند مجبور ہوتا ہے اگر ایسے حالات میں اس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے تواندیشہ ہے کہ وہ دین ودنیا لوٹنے والوں کے ہتھے چڑھ جائے گا۔ اس قسم کی شدید مجبوری کے پیش نظر اگرتعویذ دینے والاشفا منجانب اﷲ کاعقیدہ رکھتے ہوئے اورحاجت مند کواﷲ تعالیٰ پراعتماد ویقین کی تلقین کرتے ہوئے قرآنی تعویذ دیتاہے توامید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں باز پرس نہیں ہوگی اگر چہ بہتر یہی ہے کہ وہ خود دم کرے یا کسی سے دم کرانے کو ہی کافی سمجھے ۔   [واﷲ اعلم بالصواب ]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2،صفحہ:51

تبصرے